بھی نہیں
عمان
ریاض قمر
پہلے جیسی عشق میں بے اختیاری بھی نہیں
دل کو تجھ کو چھوڑنے کی سوگواری بھی نہیں
پہلے پہلے میری آنکھوں میں تمہاری نیند تھی
اب وہ سونے جاگنے کی بے قراری بھی نہیں
خود سے لپٹی بیل کو میں تازگی دیتا رہا
اس لئے سوکھی کہ اب وہ آبیاری بھی نہیں
میں جو مٹی پر پڑا ہوں اک پرندے کی طرح
یہ جو حالت ہے مری یہ اختیاری بھی نہیں
کھینچ لیتی مجھ کو دلکش سرخ پھولوں کی کشش
گرچہ ان میں تیرے لب سی اضطراری بھی نہیں
یوں ہی رہنے دو ابھی اپنے حسیں رخ پر نقاب
کہ تمہاری نذر ابھی میں نے اتاری بھی نہیں
تو نے کیوں خود کو گرایا میری نظروں میں قمر !
حالانکہ تجھ پر تو مجھ کو اعتباری بھی نہیں