جمعۃ المبارک‘ 6 رجب المرجب 1442ھ‘ 19؍ فروری 2021ء
خواتین پروفیشنل ڈگری لے کر گھر نہ بیٹھیں چھوٹے لیول پر ہی کام کریں۔ زارا نعیم
بات تو فخر پاکستان زارا نعیم نے درست کی ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہماری لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ پروفیشنل ڈگریاں لیتی ہیں۔ میرٹ کے بل بوتے پر تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرتی ہیں۔ مگر ہوتا کیا ہے ، شادی کے بعد ان میں سے اکثر 70 فیصد لڑکیاں یہ سب کچھ بھول کر ہائوس وائف بن جاتی ہیں۔ کئی ڈاکٹر ی اورانجینئرنگ ، قانون اور دیگر مضامین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیاں گھریلو ذمہ داریاں سنبھالتی ہیں۔ یوں ان کی ڈگریاں بے کار بے معنیٰ ہو جاتی ہیں۔ حالانکہ وہ ہزاروں لڑکوں کے مقابلے میں اعلیٰ نمبر لے کر تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرتی ہیں۔ اگر یہی کچھ کرنا ہوتا ہے تو بہتر ہے وہ اعلیٰ سطح پر لڑکوں کی حق تلفی نہ کریں تاکہ ان کے آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہو اور وہ تعلیم کے بعد اس سے فائدہ بھی اُٹھائیں۔ اس وقت حکومت کی طرف سے بھی خواتین کو زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھنے کے لیے مالی امداد دی جا رہی ہے۔ انہیں تکنیکی و فنی سہولتوں کی فراہمی کے بے شمار منصوبے بھی کام کر رہے ہیں۔ زارا نعیم بھی مشورہ دے رہی ہیں۔ اس لیے صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں ہر تعلیم یافتہ ہنرمند خاتون شادی کے بعد بھی کوئی چھوٹا موٹا کام کاروبار ضرور کرے اس سے ان کی صلاحیتیں بھی سامنے آئیں گی اور ان کی معاشی حالت میں بھی بہتری آئے گی۔ حکومتی سرپرستی نے یہ کام اور آسان کر دیا ہے۔ ہزاروں خواتین اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
٭٭٭٭٭
پرائمری سکول تک بچوں کو فیل کرنے پر پابندی ، نئی پالیسی آ گئی
اب ایسا ہو جائے تو بڑا اچھا ہو گا۔ ملک بھر میں لاکھوں بچے جو پرائمری سیکشن میں فیل ہوتے ہیں پھر اس کے بعد ان کے گھر والے دلبرداشتہ ہو کر ان کو سکول سے اٹھا کر کسی موٹر مکینک ، درزی ، ہوٹل یا کسی دکان پر ملازم کرا دیتے ہیں یوں وہ تعلیم سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح اب کم از کم پرائمری سیکشن یعنی اول تا پنجم کے بچے سکون سے فیل اور پاس کے خوف سے آزاد ہو کر اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں گے۔
دنیا میں دیکھ لیں بہترین تعلیمی نظام چل رہا ہے۔ جہاں فیل یا پاس سے ہٹ کر ہر بچے کو اس کی ذہنی استداد کے مطابق اس کے پسندیدہ شعبہ میں تعلیم دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں تعلیمی استعداد بھی بہتر ہوتی ہے اور بچے دل لگا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے معصوم طلبہ کو اردو ، انگریزی ، عربی سمیت حساب ، تاریخ ، جنرل نالج اور بہت کچھ 5 سال کی عمر سے ہی ازبر کرانے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ ان کے چھوٹے سے معصوم دماغ میں ہر طرح کی معلومات زبردستی بھر کر ان 6 یا 7 سال کے بچوں کو ارسطو اور افلاطون بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ گھبرا جاتے ہیں اور تعلیم کے نام سے چڑنے لگتے ہیں۔ اکثر سکول اولین دور میں چھوڑ جاتے ہیں ۔ گزشتہ روز ہی کی ایک خبر ہے کہ 30 لاکھ بچے صرف پنجاب میں سکول چھوڑ گئے ہیں۔ فیل ہونے کا خوف ، مار پیٹ کا ڈر بچوں کو اچھا طالب علم بنانے کی بجائے تعلیم سے باغی کر رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
خیبر پی کے کا وزیر قانون میٹرک پاس۔ اچھی انگریزی بولنے پر وزیر بنایا۔ شوکت یوسفزئی
یہ تو کمال کی بات ہے۔ ایسا کمال تو شاید بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال نے بھی نہیں دکھایا ہو گا جو خیبر پی کے کی حکومت نے دکھایا ہے۔ اندازہ کریں ، وزارت قانون ایک ایسے شخص کے سپرد کی ہے جس کی اپنی تعلیم میٹرک ہے۔ پہلے بھی وہی وزیر قانون تھے شور مچنے پر انہیں بلدیات کا وزیر بنایا گیا تھا۔ موصوف میں واحد خوبی یہ ہے کہ وہ فرفر انگریزی بولتے ہیں۔ اس لئے انہیں دوبارہ وزیر قانون بنایا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو بے شمار عام تعلیم یافتہ فرفر انگریزی بولتے ہیں انہیں بھی اچھی اچھی ملازمتیں عطا کی جائیں۔ اعلیٰ سیٹوں پر تعینات کیا جائے۔ کیا انگریزی بولنے والا قانون جانتاہے، قانون کی لغت سے بھی واقف ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے تبدیلی کا دعویٰ سچ ثابت کرنے کے لیے خیبر پی کے کی حکومت نے یہ کام کیا ہو۔ اگر ایسا ہے تو پھر واقعی کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کوئی سوال کرے۔ ویسے بھی بلاوجہ دل جلانے سے کیا ہو گا۔ اپنی ہی صحت خراب ہو گی۔ اس وقت ان کے پاس دو محکمے ہیں بلدیات اور قانون کے اس پر اگر ان کی حکومت کے ایم پی ایز وزیر اور مشیر کچھ نہیں کہہ رہے تو کسی کو کیا پڑی کہ وہ اس پر اعتراض کرے۔ اس لیے اکبر ایوب کو دوہری وزارتیںمبارک ہوں۔اب ایک بار پھر قانون ان کے گھر کی لونڈی بن گیا ہے۔
٭٭٭٭٭
مصر میں 3 ہزار سالہ پرانے دنیا کے قدیم ترین شراب خانے کے آثار برآمد
ہمارے شاعر ، ادیب اس انگور کی بیٹی سے رغبت رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کی خرید و فروخت پر پابندی ہے ورنہ اگر کھلے عام پہلے کی طرح اس کی اجازت مل جائے تو پتہ چلے گا کہ کیا شاعر کیا ادیب۔ کیا امیر کیا غریب کیا میخوار کیا زاہد ، نجانے اور کتنے پارسا اس ارغوانی رنگ کے اسیر نکلیں۔ کون کون کھلے عام اورکتنے ہی چھپ چھپ کر اس مستی سے بھری بوتل کے کو تھامے نظر آئیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے بقول شاعر …؎
کل رات میکدے میں عجب حادثہ ہوا
زاہد شراب پی گیا میرے حساب میں
والا معاملہ جگہ جگہ دیکھنے کو ملے۔ ہماری اشرافیہ تو آج تک اپنی نجی تقریبات میں اسی خوش رنگ مشروب سے حاضرین محفل کا دل بہاتی ہے۔ اسے ہمارے مذہب میں ام الخبائث قرار دیا گیا ہے۔ مگر دنیا میں اس کے چاہنے والے خبیثوں کی کمی نہیں۔ ایک شاعر نے تو اسکے حق میںیہاں تک کہہ دیا تھا …؎
نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل
میکدے جھومتے‘ پیمانوں میں ہوتی ہلچل
مگر یہ ایک حقیقت ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ دور قدیم سے یہ مردار دنیا کے شرفا میں اسی طرح عام تھی جس طرح رذیل لوگوں میں۔ یہ تین ہزار سال سے پرانا شراب خانہ گواہی دے رہا ہے کہ فتنہ و فساد کی جڑ یہ سیال مادہ ہزاروں برس سے انسانوں کا خانہ خراب کرتا آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اس کو حرام قراردیا گیا ہے، مگر ہر جگہ سود کے ساتھ اس کا بھی چلن عام ہے۔