آج ہم ہر لمحہ، ہر وقت ہر گھڑی بے شمار گناہوں کے باوجود اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو یہ اور کچھ نہیں صرف اور صرف اللہ تعالی کی رحمت ہے۔ ہم ہر روز ہم ہر لمحہ ہر وقت اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور ایسے ناشکرے ہیں کہ ہر وقت اللہ کی حکم عدولی بھی کرتے ہیں۔ قدم قدم پر اللہ کی حکم عدولی کے باوجود خالق کائنات بے پناہ رحیم ہیں کہ ان کی نعمتوں کا سلسلہ نہیں رکتا۔ ہمارا سانس لینا اللہ کی رحمت سے ہے۔ ہمارا قدم اٹھانا اللہ کی رحمت سے ہے ہمارا کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، صحت و تندرستی، زندگی میں ترقی، خوشیاں، مسکراہٹیں سب کچھ اللہ کی رحمت سے ہی ممکن ہے لیکن ہم ان تمام نعمتوں کے باوجود اس حد تک نا شکرے ہیں کہ ان نعمتوں کا شکر بھی اچھے طریقے سے سے ادا نہیں کر پاتے۔
ہم ہر وقت مانگتے رہتے ہیں وہ ہر وقت دیتا رہتا ہے۔ہم ہر وقت اس کی تقسیم پر گلے شکوے کرتے رہتے ہیں اس کے باوجود وہ عطا کرتا رہتا ہے۔ ہم زیادہ وقت اس کے بندوں کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف رہتے ہیں۔ سازشیں کرنے میں مصروف رہتے ہیں لیکن ہمارا مالک ہمارا خالق نہ ہمارا سانس بند کرتا ہے، نہ ہماری روزی روٹی روکتا ہے اور نہ ہمارے قدموں کو روکتا ہے۔ ہم تمام تر حکم عدولیوں کے باوجود بہترین زندگی گذارتے ہیں، تمام تر گناہوں کے باوجود فوری سزا سے بچ جاتے ہیں، ہمارا خالق ہمیں توبہ کا موقع فراہم کرتا ہے لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو صراط مستقیم کی طرف پلٹتے ہیں۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہم اس راستے پر چلتے رہتے ہیں جہاں کامیابی نہیں ہے۔ جہاں صرف اندھیرا ہے، رسوائی ہے، ذلالت ہے، ندامت و شرمندگی ہے لیکن سب کچھ جانتے ہوئے بھی صرف "انا" کی تسکین میں ہم اس غلط راستے پر گامزن ہیں۔ ہم ہر وقت مانگتے رہتے ہیں، چھیننے کی کوشش کرتے ہیں باوجود اس کے کہ اللہ کے اپنے کام ہیں وہی سب سے بہتر عطاء کرنے والا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کا فرمان ہے۔
وعسی ان تکرھوا شیا وھو خیر لکم وعسی ان تحبوا شیا وھو شرلکم واللہ یعلم وانتم لا تعلمون
ترجمہ۔ ہو سکتا ہے کسی چیز کو تم برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کسی چیز کو تم پسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
ہمیں اس دنیا میں کچھ چیزیں اچھی لگتی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان میں ہمارا فائدہ ہے جبکہ حقیقت میں وہ ہمارے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ ہمارا خالق ہمارا مالک اور تمام جہانوں کو پالنے والا ہمیں نقصان دہ چیزوں سے بچاتا ہے کاش کہ ہم اس پیغام کو کاش کہ ہم قرآن کو سمجھ سکیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح فرما دیا ہے اب اگر ہم ہی نہ سمجھیں تو یہ ہماری غلطی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ قیدی آئے ہوئے تھے ان قیدیوں میں ایک عورت گھبرائی گھبرائی پریشان پھر رہی تھی جب قیدیوں میں سے کوئی بچہ دکھائی دیتا تو اسے لپک کر اٹھا لیتی اور چھاتی سے لگا کر اسے دودھ پلانا شروع کر دیتی۔ حضور صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کیا تمہارے خیال میں یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے ہم نے عرض کیا اللہ کی قسم یہ ہرگز ایسا نہیں کر سکتی۔ تب آپ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا جتنا یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے اللہ تعالی اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک اور روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اللہ کی سو رحمتیں ہیں ان میں سے ایک حصہ اس نے جنوں انسانوں جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کے لئے اتارا ہے یہ اس ایک رحمت اثر ہے کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں اور ایک دوسرے پر مہربان ہوتے ہیں اور اسی کا اثر ہے کہ وحشی جانور بھی اپنے بچوں پر نرمی کرتے ہیں۔ ننانوے رحمتیں اللہ تعالی نے اپنے پاس رکھ چھوڑی ہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہی رحمتوں کے ذریعہ سے اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ
یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر
ترجمہ۔ بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تنگی نہیں چاہتا۔
نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے کہ "تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا" حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم ایک کام کو چھوڑ دیا کرتے تھے جبکہ آپ ؐ اس کام کے کرنے کو پسند بھی فرماتے تھے صرف اس اندیشہ کی وجہ سے کہ لوگ اس پر سختی سے عمل کرنا شروع کردیں گے اور اس طرح وہ ان پر فرض کر دیا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ضرور انہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دے دیتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم آدھی رات کو تشریف لے گئے اور مسجد میں نماز ادا فرمائی لوگوں نے بھی آپؐ کے پیچھے نماز پڑھنا شروع کر دی۔ صبح لوگوں نے آپس میں اس واقعہ کا تذکرہ کیا اور پہلی بار سے زیادہ لوگ جمع ہو گئے دوسری رات رسول اللہ تشریف لے گئے اور لوگوں نے آپؐ کی اقتداء میں نماز ادا کی پھر لوگوں نے صبح اس واقعے کا ایک دوسرے سے تذکرہ کیا تیسری رات مسجد میں بہت زیادہ لوگ جمع ہو گئے رسول اللہ تشریف لائے اور لوگوں نے آپ ؐ کی اقتداء میں نماز پڑھی اور چوتھی رات رات اس کثرت سے صحابہ کرامؓ جمع ہوئے کہ مسجد تنگ پڑ گئی اور رسول اللہ ان کے پاس تشریف نہ لائے لوگوں نے نماز نماز پکارنا شروع کر دیا لیکن آپؐ تشریف نہ لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم صبح کی نماز کے وقت تشریف لائے جب صبح کی نماز ہوگی تو آپؐ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے کلمہ شہادت پڑھا اور اس کے بعد فرمایا "پچھلی رات تمہارا حال مجھ پر پوشیدہ نہ تھا لیکن مجھے یہ ڈر تھا کہ تم پر رات کی نماز فرض کر دی جائے گی اور تم اس ادائیگی سے عاجز آ جاؤ گے"۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو دین کا ستون مومن کی معراج ایمان کی علامت آنکھوں کی ٹھنڈک اور جان کی راحت قرار دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرائض کے علاوہ اتنی کثرت سے نماز ادا فرماتے اتنی دیر کھڑے رہتے کہ آپ ؐ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا، جب آپ ؐسے سوال کیا جاتا کہ یارسول اللہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم آپ ؐ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ محدثین نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے مسجد میں جاتے اور نماز ادا فرماتے۔
بچوں سے نبی صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی محبت کا اندازہ اس حدیث پاک سے لگایا جا سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے کہ میں نماز پڑھانا شروع کرتا ہوں اور ارادہ کرتا ہوں کہ اسے لمبا کروں پھر کسی بچے کے رونے کی آواز آتی ہے تو اس خیال سے نماز کو مختصر کر دیتا ہوں کہ اسکی ماں کو اسکے رونے کی وجہ سے سخت تکلیف ہو رہی ہو گی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں اسلام پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ جیسے ہمیں اللہ کی طرف آسانیاں ملتی ہیں وہی ہم دوسروں کو لوٹانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024