سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ اور امریکی سینیٹربھی مضطرب
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گٹیرش نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی موجودہ خراب صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ایک ایسے وقت جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے دورے پر آنے والے ہیں کئی سرکردہ امریکی سینیٹرز نے بھی کشمیر کی صورت حال اور شہریت کے ترمیمی قانون پرگہری تشیوش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے دورہ پاکستان پر اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ ہمیشہ ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان اعلی سطحی مذکرات کے حق میں رہے ہیں۔ " اگر دونوں ملک ثالثی کے لیے راضی ہوں تو میں مدد کے لیے تیار ہوں۔" انھوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے تناظر میں فریقین کے درمیان فوجی اور لفظی سطح پر کشیدگی کو کم کرنے کیلئے سفارتی کاری اور مذاکرات ہی سے ایسا ممکن قرار دیاہے۔
بھارت نے ان کی ثالثی کی پیش کش مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جن مسائل پر دو طرفہ بات چیت ہوسکتی ہے ان پر کسی دوسرے یا تیسرے فریق کی ثالثی کا کوئی کردار نہیں ہے۔ نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے بیان پر رد عمل میں ظاہر کرتے ہوئے کہا، "بھارت کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، جموں کشمیر بھارت کا حصہ رہا ہے، ابھی ہے اور مستقبل میں بھارت کا اٹوٹ حصہ رہے گا۔ جس مسئلے پر بات کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان نے جس حصے پر زبردستی قبضہ کر رکھا ہے اس کو خالی کروایاجائے ۔ جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
انتونیو گٹیرش نے کشمیر سے متعلق ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال پر یو این کی واضح رپورٹ قرار دیاہے۔ ان کا کہنا تھا، " ہمارا موقف واضح ہے، دنیا میں انسانی حقوق کا احترام لازمی ہے اور کشمیر میں بھی ان حقوق کا احترام ضروری ہے۔"
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے کشمیر کے بارے میں یہ باتیں ایک ایسے وقت کہی ہیں جب وادی کشمیر میں گزشتہ چھ ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے سخت ترین پابندیاں نافذ ہیں۔ اور بھارت کشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات ختم کرکے اس کی حیثیت تبدیل کر چکا ہے۔
کشمیر پر چار سرکردہ امریکی سینیٹرز نے اپنے مکتوب میںمریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے نام اپنے مکتوب میں کشمیر کی صورت حال اور شہریت ترمیمی ایکٹ پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’بھارت کا سیکولر کردار خطرے میں ہے‘‘۔ اس خط میں کشمیر کی صورت حال کو پریشان کن بتاتے ہوئے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آئندہ 30 روز کے اندر کشمیر اور شہریت سے متعلق نئے قانون کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے کر اس پر اپنی رپورٹ تیار کرے۔
یہ خط دو ڈیموکریٹ ارکان پارلیمان کرس وین ہولین، ڈک ڈربن اور دو ریپبلکنز لنڈسے گراہم، اور ٹوڈ ینگ نے مشترکہ طور پر لکھا ہے۔ سینیٹر لنڈسے گراہم کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ مودی کے اقدام سے ’’مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور بھارت کے سیکولر کردار کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے‘‘۔
بھارت نے گزشتہ برس کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وہاں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور سرکردہ قیادت گرفتار ہے۔اس خط میں کہا گیا ہے، ’’بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے یک طرفہ طور پر جموں و کشمیر کی خودمختاری ختم کیے جانے کے بعد، وہاں چھ ماہ سے بھی زیادہ وقفے سے بیشترعلاقوں میں انٹرنیٹ پر پابندی جاری ہے۔ جمہوریت میں بھارت کی جانب سے انٹرنیٹ پر پابندی کی یہ سب سے طویل دورانیہ ہے جس سے 70 لاکھ لوگوں کی طبی سہولیات، ان کاروبار اور تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کئی بڑے سیاسی رہنماؤں سمیت سینکڑوں کشمیری اب بھی احتیاطی حراست میں ہیں۔‘‘
سینیٹرز نے امریکی وزیر خارجہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیر میں مجموعی طور پرگرفتار کیے گئے افراد کی تعداد، دوران حراست ان پر تشدد یا پھر ان کے ساتھ نازیبا سلوک جیسے امور کا تجزیہ کرے۔ کشمیر میں موبائل اور انٹرنیٹ پر پابندی اور بیرونی سفارت کاروں، صحافیوں اور مبصرین پر کس طرح کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور کشمیر میں مذہبی آزادی کی صورت حال کیا ہے، ان پہلوؤں پر بھی تجزیہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس مکتوب میں شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی پر بھی گہرے خدشات و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے اور امریکی انتظامیہ سے اس کا بھی جائزہ لینے کو کہا گیا ہے، ’’شہریت سے متعلق قانون کے نفاذ سے خاص طور پر مذہبی اور نسلی اقلیتوں میں سے کتنی بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوں گے۔ جو لوگ اس قانون کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں کیا ان کے خلاف بھارتی حکام کی جانب سے طاقت کا بیجا استعمال کیا گیا ہے؟ نیشنل رجسٹر فار سٹیزن کے نفاذ سے کتنے لوگوں کے شہریت سے محروم ہونے خطرہ ہے؟‘‘سینیٹرز نے لکھا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اقتدار سنبھالتے ہی ہندو قوم پرستی کے ایجنڈے پر تیزی سے کام کیا ہے۔ واضح رہے امریکی صدر ڈونڈ ٹرمپ اس ماہ کی 24 تاریخ کو بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی آبائی ریاست گجرات کے دارالحکومت احمد آباد میں ان کے استقبال کے لیے ایک بہت عظیم استقبالیہ تقریب کا اعلان کر رکھا ہے۔
(ڈی ڈبلیو)