4 فروری کو بانو قدسیہ کی برسی تھی۔ اس موقع پر مجھے ’’داستاں سرائے‘‘ کی یاد آئی جہاں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا قیام رہا۔ کوٹھی جس کا نام ’’داستاں سرائے‘‘ رکھا گیا۔ 1970ء میں تین کنال میں اشفاق احمد نے خود بنوائی۔ اس کوٹھی میں ان کا قیام 34 برس اور بانو قدسیہ کا 47 برس رہا۔ قبل ازیں ان دونوں عظیم ادبی شخصیات کا قیام صوفی تبسم کی اقامت گاہ سمن آباد کے قریب رہا۔ اشفاق صاحب مختلف تجربات کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ اشفاق احمد نے بتایا کہ انھوں نے خاموشی کو ریکارڈ کیا۔ اندازہ فرمائیے کہ یہ بات از خود کس قدر حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے رات بارہ بجے کے بعد چھانے والی تاریکی میں موجود خاموشی کو ریکارڈ کیا۔ یہ خاموشی تین مقامات چولستان کے صحرا، سمن آباد کی ڈونگی گراؤنڈ اور اندرون لاہور یکی گیٹ میں ریکارڈ کی۔ انھوں نے تینوں خاموشیوں اور ان خاموشیوں میں پائی جانے والی سرگوشیوں کو ایک دوسرے سے بہت مختلف پایا۔ اس قسم کا تجربہ ان ہی کا خاصا تھا۔ اشفاق صاحب ہمہ دان تھے یعنی ہرفن مولا۔ آپ کے کس کس پہلو کا ذکر کیا جائے۔ وہ اردو اور پنجابی کے ادیب، افسانہ، ڈرامہ نگار، ماہر تعلیم، صحافی، براڈکاسٹر، دانشور اور صوفی تھے۔ آپ مرکزی اردو بورڈ سے 1966ء میں بطور ڈائریکٹر وابستہ ہوئے۔ مرکزی اردو بورڈ کا دفتر گلبرگ میں تھا۔ ازاں بعد اس ادارے کا نام اردو سائنس بورڈ رکھ دیا گیا۔ اس ادارے سے وہ بطور ڈائریکٹر جنرل 1979ء میں ریٹائر ہوئے۔ اردو سائنس بورڈ کا دفتر اپر مال پر ہے۔ اشفاق صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ مرکزی اردو بورڈ (گلبرگ) سے شروع ہوا جو ان کی وفات تک جاری رہا۔ اپر مال والے آفس میں اور ان کی اقامت گاہ ’’داستان سرائے‘‘ 121سی ماڈل ٹاؤن لاہور میں ان سے ملاقاتیں رہیں۔ جب بھی کسی تقریب میں اشفاق صاحب کو زحمت دیتا، وہ تشریف لاتے۔ اشفاق احمد سے دریافت کیا گیا۔ آپ کا پہلا دکھ کون سا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ دکھ کا کوئی خاص لمحہ نہیں ہوتا اور نہ یہ کبھی حادثے کی طرح انسان پر رونما ہوتا ہے۔ اگر اس طرح سے ہو تو یہ انسانیت بڑی سُکھی ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ انسان دُکھ کے ناتے سے نہیں نکل سکتا چاہے وہ خود کو کتنا عیش و عشرت میں ڈبو دے۔ آپ اپنے اردگرد دیکھیں، چھوٹے سے بڑا ہر شخص پریشان ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو وہ لوگ بھی ملیں گے جو بڑے آسودہ ہیں، زندگی میں دراصل وہ بھی پریشان ہیں۔ اشفاق احمد رسالہ ’’داستان گو‘‘ کے مدیر رہے۔ ریڈیو پروگرام ’’تلقین شاہ‘‘ کے رائٹر، پروڈیوسر اور صداکار خود تھے۔ یہ پروگرام 41 برس تک نشر ہوتا رہا۔ آپ دیال سنگھ کالج اور اوری اینٹل کالج میں استاد رہے۔ فیض احمد فیض کو اشفاق احمد کے افسانے بہت پسند تھے۔ آخری برسوں میں اشفاق صاحب ٹیلی وژن پر ’’زاویہ‘‘ کے نام سے پروگرام کرنے لگے جو ازاں بعد کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ اشفاق صاحب کا فیض احمد فیض کے بارے میں کہنا تھا کہ ’’فیض کی دل بستگی انقلاب کے ساتھ ہے۔ یہ بھی ایک زاویے سے صوفیانہ سوچ ہی کا حصہ ہے کہ صوفی ہر کام کو ایک جماعت کی حیثیت میں کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ صوفی یا تو ہمیشہ صاحبِ حال ہوتا ہے یا صاحبِ حال کی بات کرتا ہے۔ وہ حال کے حوالے سے ہر بات سوچتے ہیں۔ بلھے شاہ ’’علموں بس کریں او یار‘‘ اس لیے کہتے تھے کہ وہ کتاب کو ماضی سمجھتے ہیں اور حال کی بات کو پسند کرتے ہیں‘‘
اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی اقامت گاہ ’’داستان سرائے‘‘ اب خاموش ہو گئی ہے یعنی یہ کوٹھی اب فروخت ہو گئی ہے۔ طارق بلوچ صحرائی اپنے افسانے ’’موسمِ سرما میں نیلی چڑیا کی موت‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’محبت کے خانہ بدوش عذابِ دربدری لیے کسی اور داستاں سرائے کے منتظر ہیں مگر کون جانے کہ یہ انتظار کتنی صدیوں کا ہے۔ میں جو کہ زندہ لوگوں پہ لکھتا ہوں، نہ جانے کیوں انجام سے ڈرنے والی کہانی کی طرح سہما ہوا بیٹھا ہوں۔ جیسے موسم سرما میںکسی نیلی چڑیا کی موت ہو گئی ہو‘‘ یہ پورا افسانہ بانو قدسیہ کی موت کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔ جو اس کے تازہ افسانوی مجموعے ’’لمس کی چپ‘‘ میں شامل ہے۔ بانو قدسیہ جو ہم سب کی بانو آپا تھیں۔ طارق بلوچ صحرائی انھیں ’’ماں جی ‘‘ کہہ کر پکارتا۔ یہ حق بانو آپا کے تین بیٹوں کے علاوہ صرف طارق بلوچ کو حاصل ہوا۔ طارق بلوچ صحرائی کے تمام افسانوی مجموعوں کے دیباچے بانو قدسیہ نے لکھے۔ ان کی زندگی کی آخری تحریر طارق کے افسانوی مجموعے ’’گونگے کا خواب‘‘ کا دیباچہ ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے مجھے پتا چلا کہ طارق بلوچ صحرائی کا تازہ مجموعہ ’’لمس کی چپ‘‘ کا پہلا ایڈیشن ایک ہفتے میں فروخت ہو گیا۔ آپ کو عجیب لگے گا مگر یہ حقیقت ہے۔ اس کے افسانے پڑھ کر آپ کو ادراک ہو گا کہ میں سچ لکھ رہا ہوں۔ ایسا ہی ہوا۔
’’داستاں سرائے‘‘ کے بِک جانے سے طارق بھی اداس ہے۔ جب ’’داستاں سرائے‘‘ والی نہ رہی تو پھر اداسی کیسی؟ طارق اس لیے بھی اداس ہے کہ اس کے تازہ افسانوی مجموعے ’’لمس کی چپ‘‘ میں بانو قدسیہ کی رائے شامل نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بانو آپا اپنی زندگی میں جو دعائیں طارق بلوچ کو زبانی اور تحریر کی شکل میں دے گئی ہیں، وہ اس کے سہارے زندہ ہے۔ وہ اپنے افسانوی مجموعوں کے دیباچوں کے اقتباسات بھی شائع کر سکتا تھا۔ ’’سوال کی موت‘‘ کا دیباچہ لکھنے کے بعد طارق بلوچ صحرائی نے بانو قدسیہ سے پوچھا۔ ماں جی! آپ کو میرے افسانے کیسے لگے۔ کہنے لگیں ’’طارق دعا کرو اللہ مجھے ایسا لکھنے کی توفیق دے‘‘ طارق کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کہا کہ ماں جی! یہ تو سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے۔ ’’داستاں سرائے‘‘ میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا صاحبزادہ اثیر احمد خان مقیم رہا جو اب قریب ہی 49 ڈی میں شفٹ ہو گیا ہے۔ اثیر احمد کا ایک بھائی انیق احمد امریکا میں 33 برسوں سے مقیم ہے۔ دوسرا بھائی انیس احمد وفات پا چکا ہے۔ اثیر احمد کی فیملی آسٹریلیا میں مقیم ہے۔ اثیر احمد ہی اپنے عظیم والدین کی یادوں کو تازہ رکھے ہوئے ہے۔ اطمینان یہ ہے کہ ’’داستاں سرائے‘‘ غیروں میں نہیں بلکہ اپنوں ہی کے پاس ہے یعنی اس کوٹھی کو اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے پوتے بلال نے خریدا ہے جو مرحوم انیس احمد کا بیٹا ہے۔ طارق بلوچ صحرائی نے بانو قدسیہ کی وفات کے بعد لکھا ’’ماں جی کے آخری سفر میں ہر آنکھ اشکبار تھی۔ جنازہ میرے کندھوں پہ تھا مگر یہ جنازہ ہر دل میں بھی تھا‘
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024