بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں یوم حضرت ابوبکر صدیق کی ریلی کے قریب خود کش دھماکے میں پولیس اور لیویز اہلکاروں سمیت8افراد شہید جبکہ 21سے زائدزخمی ہوگئے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے شارع عدالت بم دھماکہ کی مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ دھماکہ اس وقت ہوا جب ایک مذہبی جماعت کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے باہر یوم وفات حضرت ابو بکر صدیق کی مناسبت سے نکالی گئی ریلی کے بعد جلسہ جاری تھا۔
یہ نائن الیون کا شاخسانہ ہی ہے جو پاکستان اب تک بھگت رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان نے امریکہ کی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اس کا ساتھ دیتے ہوئے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کیا جس کے نتیجہ میں امریکہ کی یہ جنگ پاکستان کے گلے پڑ گئی اور پاکستان کا چپہ چپہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ روزانہ کی بنیاد پر دھماکے اور خودکش حملے معمول بن چکا تھاجس کے نتیجے میں کئی جانیں ضائع ہوجاتیں۔ان تمام کارروائیوں کے پیچھے تحریک طالبان تھی جو ہر دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرتی نظر آتی۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کیخلاف ملک بھر میں مختلف اپریشنز شروع کئے گئے جن میں ضرب عضب‘ ردالفساد‘ خیبر 4 اور کومبنگ جیسے مؤثر اپریشن کرکے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی‘ مختلف کالعدم تنظیموں کیخلاف کارروائی کی گئی اور بیشتر دینی مدارس حکومت کی سرپرستی میں لئے گئے۔ ان اپریشنز میں پاک فوج کے افسران اور اہلکاروں سمیت شہریوں نے اپنی جانوں نے نذرانے پیش کرتے ہوئے ملک میں امن قائم کیا۔ اب جبکہ دہشت گردوں کا مکمل قلع قمع ہوچکا ہے‘ لیکن انکی باقیات اب بھی کہیں نہ کہیں چھپی اپنے زخم چاٹ رہی ہے۔ اسے جب موقع ملتا ہے‘ وہ کہیں نہ کہیں واردات کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اور دوسرے جاری اپریشنز کا دائرہ کار وسیع کرکے ان کیخلاف مؤثر کی جائے ۔ حکومت کوئٹہ دھماکے کے ذمہ داوں کے خلاف کارروائی کر کے حقائق عوام کے سامنے لائے۔ بہرحال قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع افسوسناک ہے۔ دہشت گردی کے واقعات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا تاکہ دہشت گردوں کی ان باقیات کا مکمل صفایا کیا جاسکے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024