بدھ ‘ 24 ؍جمادی الثانی 1441ھ ‘ 19 ؍ فروری 2020 ء
وزیراعظم ہمت کریں۔ مولانا فضل الرحمن کیخلاف مقدمہ درج کرائیں۔ حافظ حمد اللہ
بھلا حکومت کو کیا پڑی ہے کہ وہ ’’آبیل مجھے مار‘‘ والے محاورے پر عمل پیرا ہو۔ خود پر مقدمہ درج کروانے کا شوق جن کو ہے وہ ازخود اس کا بندوبست کریں تاکہ کارروائی آگے بڑھے۔ صرف اس قسم کے اعلانات اور بیانات دے کر خود کو ہیرو ثابت کرنا کسی کے لیے سود مند ثابت نہیں ہو سکتا۔ ابھی تک مولانا نے جتنے بھی بیانات دئیے کام کئے وہ قابل گرفت ہو سکتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ حکومت اور اسکے قانونی مشیروں نے کرنا ہے۔ فی الحال مولانا کی وجہ سے حکومت کو کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔ حکومت نے نہایت مہارت سے اعلیٰ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے مولانا کے دائیں اور بائیں کھڑے اتحادیوں کو ایک ایک کر کے ٹھکانے لگایا۔ کسی کو باہر بھیج کر کسی کو ضمانت دے کر۔ اس طرح میدان اپنے حق میں صاف کر دیا اس لیے فی الحال مولانا بے فکر رہیں ان کے خلاف کوئی مقدمہ وغیرہ نہیں بنے گا۔ البتہ مارچ میں ہونے والے مارچ کی گارنٹی کوئی نہیں دے سکتا۔ وہ جب وقوع پذیر ہو گا تو پتہ چلے گا کہ ان تلوں میں کتنا تیل ہے۔ اس وقت تک عوام ’’تیل دیکھو اورتیل کی دھار دیکھو‘‘ پر عمل کرتے ہوئے تماشہ اہل سیاست دیکھتے رہیں گے۔ بس اتنا دھیان رہے کہ معاملات سیاستدانوں کے ہی کنٹرول میں رہیں تو بہتر ہے کہیں مارچ میں کوئیک مارچ والی کیفیت نہ پیدا ہو جائے جس کے بعد ساری پنیر کوئی اور کھا سکتا ہے اور کھسیانی بلیاں کھمبے نوچتی رہ جائیں گی۔
٭٭٭٭٭
گجرات میں مخالف طلبا کو برہنہ کر کے بدترین تشدد کی ویڈیو وائرل
طلبا کی سیاست میں ہنگامہ آرائی ایک اہم جُز ہے۔ مخالف تنظیمیں ایک دوسرے کو دشمن قرار دے کر اپنے مخالفین کو سرعام مرغا یا گدھا بھی بناتی ہیں۔ ایک دوسرے کو پھینٹی لگانا اور تعلیمی اداروں میں اپنی دھاک جمانا ہماری طلباء تنظیموں کا پسندیدہ شغل رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد عرصہ دراز تک ایشاسرخ سے ایشا سبز ہے کہ نعرے تلے مذہبی اور نیشنلسٹ تنظیموں کے درمیاں جو معرکہ برپا رہا وہ طلباء تنظیموں پر پابندی لگنے کے باوجود مکمل طور پر ختم نہ ہو سکا۔ اس کارخیر میں جو کچھ ہوا وہ بذات خود ایک دلچسپ روداد ہے مگر گزشتہ روز گجرات میں ہونے والا واقعہ نہایت افسوسناک ہے۔ ورنہ یادش بخیر ماضی میں پولیس والوں کے ہاتھوں احتجاجی جلوسوں میں خواہ وہ ایوب خان کے خلاف ہوں یا بھٹو کے یا پھر ضیا الحق کے۔ طلبا کو برہنہ کر کے سربازار ان کی چھترول کرنے کے درجنوں واقعات تاریخ میں رقم ہو چکے ہیں۔ مگر گزشتہ روز گجرات کے قریب ’’ڈنگہ میں ایک طلبا تنظیم نے اپنے مخالف طلباء کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا وہ نہایت شرمناک ہے۔ طلباء میں اختلافات اپنی جگہ مگر اس طرح کسی کی تذلیل ناقابل معافی جرم ہے۔ اتنی جرأت تو پولیس کو نہیں تھی کہ وہ برہنہ طلبا کو سڑکوں پر گھماتی۔ پہلے اگر کچھ ایسا ہوتا تو مخالف طلبا کے ساتھ ہوسٹل میں ایسے سلوک تک ہی بات محدود رہتی تھی۔ اب طالب علم کہلانے والے ان غنڈوں نے تو تمام حدیں پھلانگ لی ہیں اب ان کی گوشمالی انتظامیہ کا فرض ہے۔
پنجاب شجرکاری مہم، ایک ہی روز میں 3 لاکھ 57 ہزار درخت لگانے کا منصوبہ
منصوبے تو بے شمار بنتے ہیں ماحول کو سرسبز بنانے کے مگر ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں‘‘ پنجاب ہو یا پاکستان ہر جگہ ہریالی کم ہوتی جا رہی ہے۔ ماحولیاتی تناسب بگڑ رہا ہے۔ موسمی تبدیلیاں ہمارے سروں پر خطرے کے الارم بجا رہی ہے۔ اس کے باوجود ہم حال مست مال مست لوگ ہیں۔ ایک طرف اعلان کرتے ہیں بلین ٹریلین درخت لگانے کے منصوبوں کے اور اس کے برعکس حقیقت میں ہر روز لاکھوں نہیں تو ہزاروں درخت نہایت بے دردی سے کاٹ ڈالتے ہیں کہیں ایندھن کے نام پر کہیں شہری ترقیاتی منصوبوں کے نام پر۔ شہروں سے تو سبزہ عنقا ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تو شکر ہے کچھ بڑی بڑی ہائوسنگ سکیموں میں سبزہ و گل کی بھی گنجائش رکھی جاتی ہے ورنہ شہر تو ہر طرف سے کنکریٹ کا جنگل معلوم ہوتے ہیں۔ اب حکومت پنجاب 23 فروری کو 3 لاکھ 75 ہزار درخت لگانے کا سوچ رہی ہے۔ بہت اچھی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اگر حکومت ہر شہری کے لیے ایک درخت لگانا اور اسے پروان چڑھانا لازمی قرار دے تو ہر سال خودبخود کروڑوں درخت لگ سکتے ہیں جسکے بعد پھر حکومت کو شجرکاری مہم چلانے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہر گھر میں ایک درخت ہی لگے تو شہروں میں ہی جنگل میں منگل کا سماں پیدا ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
سٹیل ملز کی بحالی اور نجکاری کا منصوبہ ترک کر دیا گیا
یہ تو اب حکومت ہی جانتی ہو گی کہ یہ فیصلہ کیوں اور کس بنیاد پر ترک کیا گیا۔ مگر ایک بات سب جانتے ہیں کہ یہ شاندار سٹیل مل پاکستان کی صنعتی ترقی کا منہ بولتا ثبوت تھی جو ملکی معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتی رہی۔ پاکستان کے صنعتی حب کراچی میں قائم یہ سٹیل مل روس اور پاکستان کے درمیان دوستی کی آئینہ دار بھی ہے۔ مگر افسوس کہ بھٹو دور کے بعد جب ضیا الحق کے دورمیں ایک تنظیم کو کھلا ہاتھ دیا گیا تو روس سے نفرت کی بنیاد پر جو افغان جنگ کی بدولت اس وقت عروج پر تھی۔ سٹیل ملز کو بھی لاوارث چھوڑ دیا۔ کراچی پر تسلط کے بعد اس تنظیم نے ایم کیو ایم کی شکل اختیار کی تو سٹیل ملز کو بھی خاص طور پر نشانہ بنایا یہاں سیاسی بنیادوں پر اتنی بھرتیاں ہوئیں کہ سٹیل مل ریت کا قلعہ ثابت ہوئی اور بیٹھتی چلی گئی۔ بالکل پی آئی اے والا حال اس کا بھی ہوا۔ ملکی صنعتی ترقی کی بجائے جب حکمران اداروں کو اپنی ترقی کا زینہ بنا لیں۔ سیاسی بنیادوں پر نااہلوں کی تقرریاں کریں تو بڑے بڑے منافع بخش ادارے اس طرح تباہ برباد ہو جاتے ہیں۔ جس طرح پی آئی اے اور سٹیل ملز ہوئی ہے۔ عرصہ دراز سے کہانی چل رہی تھی ۔ پاکستان کے اس بے مثال صنعتی شعبہ کو بحال کیا جائے یا اسکی نجکاری کی جائے مگر وہی سیاسی رسہ کشی اور کمیشن کے لالچ میں کچھ نہ ہو سکا۔ نجکاری کی بجائے اگر حکومت یہاں کے مفت بر سیاسی ورکر ملازموں کو فارغ کرے ۔ سفارشی اور سیاسی بھرتیوں سے اس ادارے کو پاک کرے تو یہ ادارہ آہستہ آہستہ اپنی کھوئی عظمت رفتہ بحال کر سکتا ہے۔ یہ کوئی عام دکان نہیں کئی کھربوں کی کمائی ہے۔ اسے حلوائی کی دکان سمجھ کر یہاں دادا کا فاتحہ دلوانے سے بہتر ہے اسے ملک کا کارآمد منافع بخش ادارہ بنایا جائے۔
٭٭٭٭٭