اشرف غنی افغانستا ن کے دوبارہ صدر منتخب، الیکشن کمیشن کاصدارتی انتخابات میں کامیابی کا باضابطہ اعلان
افغانستان کے آزادانہ الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب میں اشرف غنی کی کامیابی کا باضابطہ اعلان کردیا ہے جس کے ساتھ ہی وہ دوسری مرتبہ افغانستان کے صدر منتخب ہو گئے ، الیکشن کمیشن کے سربراہ حوا عالم نورستانی نے پریس کانفرنس میں سرکاری اور حتمی نتائج کا اعلان کی کرتے ہوئے کہاکہ کہ گزشتہ سال 28ستمبر کو ہونے والے انتخابات میں اشرف غنی نے 9لاکھ 23ہزار 592 ووٹ یعنی 50.64فیصد ووٹ حاصل کیے۔ان کے حریف اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے 7لاکھ 20ہزار 841 ووٹ یعنی 39.52فیصد ووٹ حاصل کیے۔بیلٹ کی گنتی میں تکنیکی مسائل اور دھاندلی کے الزامات کے سبب نتائج ایک عرصے سے التوا کا شکار تھے۔جنگ زدہ افغانستان 3 کروڑ 50 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی والا ملک ہے جہاں 96 لاکھ لوگوں رائے دہندگان کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہوئے جبکہ ملک بھر میں 4 ہزار 900 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے۔الیکشن کمیشن کی سربراہ ہوا عالم نورستانی نے بتایا تھا کہ 96لاکھ ووٹرز میں سے صرف 18لاکھ نے حق رائے دہی استعمال کیا۔طالبان کے حملوں کے سبب انتخابات خوف کے سائے میں منعقد ہوئے جس کے سبب ووٹر ٹرن آوٹ بہت کم رہا تھا حالانکہ اس کی نسبت 2014 کے انتخابات میں تقریبا 50فیصد افراد نے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔ عبداللہ نے دسمبر میں ان صوبوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی پر رضامندی ظاہر کی تھی جہاں ان کے حامیوں کے سبب یہ عمل تقریبا ایک ماہ تک التوا کا شکار رہا تھا۔الیکشن کمیشن نے نومبر میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی شروع کرنے کی کوشش کی تھی لیکن عبداللہ نے اس عمل کو روکتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے حامیوں کو اس عمل میں شرکت نہیں کرنے دیں گے۔اس سے قبل 2014 کے انتخابات میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے فتح کا دعوی کیا تھا اور پھر امریکا کے دباو پر ایک مشترکہ حکومت قائم کی تھی جس کے بعد صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ تھے۔یاد رہے کہ انتخابات میں اشرف غنی کی کامیابی کا اعلان ایک ایسے موقع پر ہوا کہ جب امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط آئندہ چند روز میں متوقع ہیں جس کے نتیجے میں ملک سے امریکی افواج کا انخلا ہو جائے گا، الیکشن کمیشن کی سربراہ حوا عالم نورستانی کا کہنا تھا کہ ہم نے ایمانداری، وفاداری، ذمہ داری اور اور سچائی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی مکمل کی ہے۔ جمہوریت کی بقا کے لیے ہم نے ایک ایک ووٹ کی عزت کی ہے۔2001 کے بعد سے حالیہ انتخابی عمل کو سب سے زیادہ شفاف سمجھا رہا ہے۔ جرمنی نے شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانے کے لیے بائیومیٹرک مشینیں بھی مہیا کی تھیں تاکہ لوگ ایک دفعہ سے زیادہ ووٹ نہ ڈال سکیں۔اس کے باوجود 20 لاکھ 70 ہزار ووٹوں میں سے تقریبا دس لاکھ ووٹ بیضابطگیوں کے باعث منسوخ کردیے گئے۔ ماضی کے مقابلے میں حالیہ انتخابات میں لوگوں کے ووٹ ڈالنے کی تعداد سب سے کم رہی ہے۔