وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہم نے پاکستان سے غربت کو مٹانا ہے، جہالت کو مٹانا ہے، کرپشن کومٹانا ہے اور ہم نے ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ہے، ملک میں امن ہو گا تو ملک ترقی کرے گا ۔ امن ہم مشرق کی طرف بھی چاہتے ہیں اور امن ہم مغرب کی طرف بھی چاہتے ہیں ۔ہمارا پورا دفترخارجہ، قیادت اور افواج، افغانستان میں امن اور استحکام کے لئے کوشش کر رہی ہیں اور یہی ہم بھارت کے ساتھ چاہتے ہیں نہ جانے وہ کس بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے اور کس جنون میں مبتلا ہو گئے اس کو دیکھ کر پاکستان نے کوئی غیر ذمہ دارانہ گفتگو نہیں کی۔ بھارت عالمی عدالت انصاف سے کلبھوشن یادیو تک صرف قونصلر رسائی نہیں مانگ رہا بلکہ وہ کلبھوشن یادیو کی بریت اور رہائی مانگ رہا ہے ۔ بھارت تین بنیادی ستونوں پر اپنا کیس کھڑا کر رہا ہے اور ہم اپنا مئوقف پیش کر رہے ہیں دیکھیں فیصلہ کیا آتا ہے۔ 23مارچ کو ملائشیاء کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کا پاکستان آنے کا ارادہ ہے۔ قطر سے بھی جلد وفد پاکستان آنے کی امید ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ مشرق وسطیٰ میں لڑائیاں ختم ہوں اور امن ہو ۔ دنیا کا آئی ایم ایف کے ذریعہ اعتماد کا سگنل ملتا ہے، آئی ایم ایف کے پاس جانے کا آپشن موجود ہے،سارک کے راستہ میں بھی بھارت اس وقت رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ا ن خیالات کا اظہار شاہ محمود قریشی نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کی اولین ترجیح ان کے آنے والے انتخابات ہیں ، بھارتی حکومت کی مالی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور بھارت کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کو بہت مار پڑی ہے اور ان کی توقعات کے باالکل برعکس نتائج آئے ہیں اور اگر یہی نتائج قومی سطح کے الیکشن میں آئے تو پھر بی جے پی کی چھٹی ہو سکتی ہے۔ ا نہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت انتہائی دائیںبازو کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہے اور یہ پاکستان کو نشان بنا کر حاصل کیا جا سکتا ہے اور یہ ان کی سیاسی ضرورت بن گئی ۔ ا نہوں نے کہا کہ اگر بھارت سنجیدہ ہے اور اس کے پاس پلوامہ حملے کے حوالہ سے قبل عمل شواہد ہیں تو وہ پاکستان کو فراہم کرے میں دیانتداری سے کہہ رہا ہوں ہم اس بات کی تہہ تک جائیں گے ۔ا نہوں نے کہا کہ یہ نئی حکومت ہے اور اس کی سوچ ہے نیا پاکستان، نئے پاکستان کی سوچ یہ ہے کہ ہم چیزوں پر پردہ نہیں ڈالیں گے ، اگر ہمارے ہاں کوئی غلطی ہے تو ہم اس کی نشاندہی کریں گے اور اس کی اصلاح کریں گے ، ہم نے آگے بڑ ھنا ہے ماضی کے جھروکوں سے دیکھنا ہمیں بند کرنا ہو گا اور اگر کوئی ایسی غلطیاں ماضی میں اگر ہم کوئی کر رہے تھے اور وہ یہاں کر رہے ہیں ، ہمیں اپنا رویہ بدلنا ہو گا، جب تک ہم اپنا رویہ نہیں بدلیں گے ہم آگے نہیں بڑھ پائیں گے ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کے وفد کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے اسلام آباد میں کوئی ملاقات طے نہیں ہوئی تھی۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے حوالہ سے بھی ابھی فیصلہ ہونا باقی تھا ، ایک اشارہ ملا تھا کہ ایسا ممکنات میں ہو سکتا ہے اورایک پیغام بھی تھا لیکن ہم نے اس کے مثبت اور منفی پہلوئوں کو دیکھنا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اور امریکی حکام کے درمیان 18فروری کو ہونے والی ملاقات ملتوی ہوئی ہے ، کچھ تکنیکی وجوہات تھیں، کچھ ٹریولنگ کے معاملات تھے اس کو ملتوی کیا گیا لیکن انشاء اللہ ہماری کوششیں اور کاوشیں جاری رہیں گی اور مجھے امید ہے جلد نشست بھی ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعہ ہم افغان مسئلہ کے سیاسی حل کی طرف بڑہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ افغان مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا ہے کہ ہمیں امن کو موقع دینا چاہئے اور ہم اس سلسلہ کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم یہ بھی کہہ رہے ہیں سارا بوجھ پاکستان نہیں اٹھا سکتا یہ ایک مشترکہ ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کا بوجھ خطہ کے دیگر ممالک نے اٹھانا ہے اور ذمہ داری کا ثبوت دینا ہے اور تعاون فرمانا ہے۔ ZS
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024