مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک بھارتی فوجی قافلے پر حملے میں کوئی پچاس بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے۔ اس حملے کی پہلی خبر میں آٹھ فوجیوں کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھاا ور ساتھ ہی پورے بھارت نے یک زبان ہو کر جیش محمد پر حملے کی ذمے داری ڈال دی۔
یہ تو تھا بھارت کا روائیتی رویہ۔
مگر ہمارے میٖیڈیا نے اس سے آ ٓگے کی خبر اڑائی کہ جیش محمد نے اس حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ ہمارے ہی میٖڈیانے یہ کہنا سروع کر دیا کہ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنا دورہ ایک روز کے لئے مئوخر کر دیا ہے۔
میںنے اس واقعے کو سمجھنے کے لئے لیفٹننٹ جنرل غلام مصطفی سے بات چیت کی۔ وہ کشمیر میں سٹرائیک کور منگلا کے کمانڈر رہے اور ملک کی دفاعی کمان کے بانی اور دوبار اس کے سربراہ بھی بنے۔ انہوںنے مجھ سے پوچھا کہ آپ بہت تجربے کار صحافی ہیں۔ کیاا ٓپ جانتے ہیں کہ جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا محل وقوع کیا ہے ۔ میںنے کہا کہ جیش محمد تو دور کی بات ہے میں قبلہ حافظ سعید کو پچھلے ایک سال سے ملنے کے لئے بے تاب ہوں مگر نہیں جانتا کہ وہ کہاں غائب ہو گئے۔ ان کے سیکرٹری اطلاعات یحییٰ مجاہد میرے عزیز ہیں لیکن ان سے میرا تین ماہ سے رابطہ ہی ٹوٹا ہوا ہے۔ دریں حالات میں جیش محمد کے بارے میں کیسے باخبر ہو سکتا ہوں۔ اس پر جنرل مصطفی ہنسے ا ور کہنے لگے جب آپ کا حال یہ ہے تو یہ جو نئے اینکر ملکی میڈیا پر بیٹھے ہیں ،وہ اگر بے پر کی ہانکیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ جنرل صاحب نے کہا بھارتی میٖڈیا وہی زبان بول رہا ہے جو بھارتی حکومت بول رہی ہے مگر ہمارا میڈیاشتر بے مہار ہے۔ اس لئے ہم حالات کوا اس کے صحیح تناظر میں نہیں سمجھ سکتے۔ کون نہیں جانتاکہ بھارت میںنئے الیکشن ہونے و الے ہیں اور مودی کو دوبارہ جیتنے کی فکر لاحق ہے۔ وہ انتہا پسندانہ جذبات کوبھڑکائے بغیر دوبارہ جیتنے کے قابل نہیں۔تو ہم کیوں نہیں کہتے کہ پلوامہ کا ڈرامہ اسی نے خود رچایا ہے اور پچاس بھارتی فوجیوں کو اپنے گھنئاونے مقصد کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔جنرل مصطفی نے بتایا کہ بھارتی فوجی قافلے میں ستر کے قریب گاڑیاں شامل تھیں ۔ تو کیوںان کی سیکورٹی کا مناسب بند و بست نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے ان گاڑیوں میں دلت فوجی سوار تھے۔ بھارت میں اونچی ذات کے ہندو دلت کواچھوت سے بھی کم تر درجہ دیتے ہیں۔ہندو ان سے کھلم کھلا نفر ت کا اظہار کرتے ہیں تو جواب میں دلت بھی ان سے متنفر ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نے پلوامہ کا ڈرامہ رچا کر ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے دلتوں کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان ان کادشمن ہے اور کشمیری مسلمان ان کو زندہ رہنے کا حق بھی نہیں دیتے۔ اس طرح اس نے دلت کی ہمدردیاں جیتنے کی کوشش کی ہے۔جنرل مصطفی نے تجزیہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاںعام خیال یہ ہے کہ پلوامہ ڈرامے سے بھارت نے پاکستان میں سعووی شہزداے کے دورے کو تلپٹ کر نے کی کوشش کی ہے۔ اسی لئے یہ افواہ بھی اڑی کہ یہ دورہ ایک دن کے لئے منسوخ کر دیا ہے۔ ویسے یہ بہت بڑی چال ہے کہ عین اس وقت جب ارب ہا ڈالر کی سرمایہ کاری کے لئے سعودی وفد پاکستان ا ٓرہا ہے لیکن اگر یہ تاثر گہرا کر دیا جائے کہ پاکستان تو ایک دہشت گرد ملک ہے تو کون یہاں سرمایہ کاری کرے گا۔ مگر ا س چال کو سعودی ولی عہد بخوبی جانتے ہیں اور وہ بھارت کی سرشت کو بھی پہچانتے ہیں۔ وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ جنرل مصطفی نے کہا کہ پلوامہ کا ڈرامہ سعودی وفد کی آمد کو سبوتاژ کرنے کے لئے تو ہے ہی مگر ا س کے مقاصد اس سے بھی بڑے گھنائونے ہیں اور یہ ایک گریٹ گیم کا حصہ ہے۔ یہ گریٹ گیم بحر ہند پر کنٹرول کے لئے جاری ہے ۔امریکہ اور یورپ کے خزانے خالی ہو رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ جو طاقت یوریشیا پر کنٹرول رکھ سکے گی،وہی معاشی طور پر زندہ رہنے کے قابل ہو گی۔ یوریشیا پر بظاہر روس کا غلبہ ہے اور روسی صدر پوٹن کی صلا حیتوں کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وہ خود تو پس پردہ ہے مگراس نے چین کو آگے رکھا ہوا ہے جو خطے میں تیزی سے معاشی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ وہ ایک ٹرین ایران پہنچا چکا ہے۔ دوسری طرف اس نے سری لنکا کی ایک بندر گاہ بھی قبضے میں لے لی ہے جس میں اس نے سرمایہ کاری کی تھی مگر سری لنکا ڈیفالٹ کر گیا اور معاہدے کے مطابق بندر گاہ کا کنٹرول چین کے ہاتھ چلا گیا۔ چین نے دو تین افریقی ممالک کی بندرگاہوں کوبھی اسی طرح کنٹرول کر لیا ہے۔ چین بڑی خاموشی سے یمن کا جھگڑا بھی ختم کرانے کی کوششوں میں مصروف ہے کیونکہ عدن کی بندر گاہ کو پر امن بنا کر اس کے ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبوں کو پروان چڑھانے میںمدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ چین کی فوج خاموشی سے شام میں موجود ہے اور اس نے بشارالاسد کو برقرار اور قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس اسٹریٹیجک پس منظر میں بھارت بڑی حد تک امریکی عزائم کو پورا کر نے میں کوشاں ہے۔ وہ پاکستان کوکمزور کرنا چاہتا ہے کیونکہ بحیرہ ہند پر کنٹرول کے لئے پاکستان کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ بھارت نے پاکستان کو ا س کردار کی ادائیگی سے محروم رکھنے کے لئے بڑے جتن کئے ہیں مگر اب تک اسے سو فی صد ناکامی کا سامنا کرناپڑا ہے کیونکہ پاک فوج پوری طرح چوکس ہے۔ اب بھی خدشہ یہ ہے کہ پلوامہ کا بدلہ لینے کے لئے کئی اقدامات کر سکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ کنٹرو ل لائن پر گولہ باری میں اضافہ کر دے۔ دوسرے وہ ڈرون کے ذریعے آزاد کشمیر کے علاقوں میں سرجیکل اسٹرائیک کر سکتا ہے۔ اس بنا پر پاک فضائیہ پوری طرح تیار ہے اور پاکستانی حدود میں داخل ہونے والے کسی بھی بھارتی ڈرون کو مارگرانے کے حکم پر عمل کیا جائے گا۔ بھارت کی ایک کوشش یہ ہو گی کہ وہ پاکستان کو سفارتی محاذ پر تنہا کر دے۔ اگرچہ امریکہ جرمنی اور چندد یگر ممالک نے پلوامہ کی مذمت کی ہے مگر کسی نے پاکستان کی براہ راست مذمت نہیں کی۔ سو یہ محاذ بھی بھارت کی ناکامی کا منہ چڑا رہا ہے۔
جنرل مصطفی سے پوچھا گیا کہ پلوامہ پر پاکستان کے رد عمل پر آپ کا تبصرہ کیا ہے تو انہوںنے کہا کہ ا س بار ہم نے وہ غلطیاں نہیں کیں جو ممبئی حملوں کے بعد ہم سے سرزد ہوئیں۔ اس وقت تو وزیر اعظم گیلانی نے حکم دے دیا کہ ہمارے آئی ایس آئی چیف بھارت جائیں اور انہیں مطمئن کریں۔ ملک کے عوام نے اس حکم کو مسترد کر دیا۔ اور ہم بھیگی بلی بنے رہے اور ہم بھارت سے کبھی نہ پوچھ سکے کہ ا س نے سمجھوتہ ایکسپریس میں جلائے گئے مسافروں کے مجرم کو کیا سزا دی۔ ہم نے یہ بھی نہ پوچھا کہ گجرات میں قتل عام کرنے والے مودی کو بھارت کا وزیر اعظم کیوںبنا دیا گیا۔ ہم نے کبھی یہ غور نہیں کیا کہ بھارتی حکومت پر تنقید کرنے والوں کو وہاں کے ریاستی اداروںنے خفیہ طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
پلوامہ ڈرامہ کا وہ فائدہ مودی کو سیاسی طور پر نہیں پہنچا جو مودی کے ذہن میں تھا۔ جنرل مصطفی نے کہا کہ ابتدائی طور پر تو یوں لگتا تھا کہ پوری بھارتی قوم مودی کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ راہول نے بھی کہہ دیا تھا کہ وہ حکومت کے ساتھ کھڑا ہے ، یہی راہول چند روز پہلے تک کہہ رہا تھا کہ چوکیدا ر ہی چور ہے۔ یہ الزام وزیر اعظم مودی پر رشوت ستانی ا ور غداری کے مترادف تھا۔ مگر پلوامہ کے چوبیس گھنٹوں بعد مودی کے الزامات کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ اور اب آدھا بھارت یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ مودی اس ڈرامے سے الیکشن میں فائدہ ا ٹھانا چاہتاہے۔ چنانچہ پلوامہ کا ڈرامہ مودی کے لئے ٹھس ہو چکا۔جنرل صاحب نے کہا کہ پلوامہ کے ڈرامے سے بھارت نے افغان مذاکرات کو بھی سبو تاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ڈرامے کی ٹائمنگ انتہائی اہم ہے۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024