کشمیری مسجد میں پناہ لینے پرمجبور
پلوامہ حملے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں مسلسل تیسرے روز بھی حالات انتہائی کشیدہ رہے اور جموں کے علاقے بھٹنڈا میں 2000 سے زائد مسلمانوں نے ہندو انتہا پسندوں کے حملوں سے بچنے کے لیے ایک مسجد میں پناہ لے لی۔ حملوں سے بچنے کے لیے مزید لوگ مسجد میں آ رہے ہیں۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پولیس نے جنوبی ضلع پلوامہ میں بیگناہ کشمیری نوجوانوں کی گرفتاری کا سلسلہ تیز کر دیا ہے اور مزید 16 نوجوانوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ بھارتی فورسز کے اہلکار رات کے وقت گھروں پر چھاپے مار کر نہ صرف نوجوانوں کو گرفتار کر رہے ہیں بلکہ بلالحاظ جنس و عمر اہلخانہ کو مار پیٹ کا بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔
جو کچھ جموں اور مقبوضہ کشمیر کے دیگر علاقوں میں پلوامہ حملے کے بعد سے ہو رہا ہے وہ بے شرمی اور ظلم و بربریت کی انتہا تو ہے ہی لیکن قابض انتظامیہ کی حمایت اور مدد اسے مزید قبیح بنا رہی ہے جس نے ہندو بلوائیوں کو کشمیریوں ا ور مقامی مسلمانوں کی جانوں، گھروں، دکانوں اور گاڑیوں پر حملوں کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ یہ لوگ شدت پسند دہشتگردوں کے ہاتھوں مسجد میں بھی کیونکر محفوظ ہو سکتے ہیں۔ ایسی سفاکیت کے ردعمل میں ہی مجاہدین اور فدائین جنم لیتے ہیں۔ بھارت کی طرف سے پاکستان پر حملہ آوروں کی مدد کا الزام لائن آف کنٹرول سیل ہونے کے پیش نظر بے ہودہ ہے۔ سیکرٹری خارجہ پاکستان تہمینہ جنجوعہ نے کہا ہے کہ پاکستان پر بھارتی الزامات خطے کے امن کے مفاد میں نہیں ہیں، بھارتی الزام تراشیاں اور جارحانہ رویہ خطے کے امن کے لیے نقصان دہ ہے۔ بھارت کی جانب سے سوشل میڈیا پر متضاد مواد کو جواز بنانا حقائق کے منافی ہے۔عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ہزاروں نہتے کشمیریوں کا مسجد میں پناہ لینا کافی ہونا چاہئے۔ آخر یہ لوگ کس سے داد فریاد کریں۔ اس نازک موقع پر او آئی سی کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بھی کشمیری کے نقصان سے دوچار ہونے سے قبل او آئی سی کو بھارت سے رابطہ کر کے شدت پسندوں کو ظلم سے باز رکھنے کے لیے دبائو ڈالنا ہو گا۔