منگل ‘13 ؍ جمادی الثانی 1440ھ‘ 19 ؍ فروری 2019ء
بھارت کا غازی عبدالرشید کو پلوامہ حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیکرمارنے کا اعلان
بھارت کس کس کا منہ بند کرے گا۔ کس کس کو سچ کہنے سے روکے گا۔ کشمیریوں کے قتل عام کے خلاف خود بھارت میں ایک کے بعد ایک آواز بلند ہو رہی ہے۔ اب کہاں تک بھارتی سامراج ان سچ کی آوازوں کو غدار کہہ کر دبائے گا۔ انہیں روزگار سے محروم کرنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ بھلا روشنی کا قافلہ شب کی گھور تاریکی سے دب سکا ہے۔ روشنی کی ایک ننھی کرن ظلمت شب کے سینے کو چاک کرکے سارے آسمان کو روشنی سے بھر دیتی ہے۔ سو اب بھی یہی ہو رہا ہے۔ اداکارکمل ہاسن ہی نہیں ان سے پہلے سوامی اگنیش ’’پنجاب کے سیاستدان سکھ پال سنگھ کے علاوہ ممتاز صحافی ارون دھتی رائے بھی اس بارے میں کڑوا سچ کہہ چکی ہیں اور نفرت کا سامنا کر رہی ہیں۔ آسام میں انگریزی کی ایک پروفیسر پیپربنرجی کو بھی اس سچ کی پاداش میں نوکری سے معطل کیا جا چکا ہے۔ ایسے کئی اور بھی واقعات ہیں۔ جب کشمیر کامسئلہ حل کرنے کی بات کرنے والوں کو قابل تعزیر ٹھہرایا گیا۔ اب اس سے بڑی بھارتی بوکھلاہٹ کیا ہو گی۔ انہوں نے 2007ء میں جاں بحق ہونے والے غازی عبدالرشید کو پلوامہ حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دے کر خوب شور مچایا۔ بعد میں انہیں ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کر ڈالا۔یہ تو بھارتی میڈیا اور حکومت کا حسن کرشمہ ساز ہے کہ وہ چاہے تو مروے کو بھی زندہ کر سکتا ہے اور مرے ہوئے کو ایک بار پھرمار سکتا ہے۔ بے شک بعد میں حقیقت کھلنے پر چاہے کتنی بھی شرمندگی کیوں نہ اٹھانا پڑے اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اب سچ پتہ چلنے کے بعد وہ منہ چھپانے کی بجائے پاکستانی کھیلوں اور گلو کاروں پر پابندیاں لگا رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
خانیوال پولیس نے ریس کھیلنے والے گدھے اور اسکے مالک کواشتہاری قرار دیدیا
گدھا گاڑی ریس آج بھی کراچی میں ہی نہیں پورے سندھ اور بلوچستان میں ہوتی ہے۔ لوگ بڑے شوق سے اسے دیکھتے ہیں۔پنجاب میں کم سہی مگر اس ریس کے انعقاد کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔ کاش کسی حکمران کی نظر اس عوامی ریس پر بھی پڑتی اور وہ اسے قومی کھیلوں میں شامل کرتے۔ اس طرح اس کھیل کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی اور عوام کو گھوڑوں کی ریس کے ساتھ ساتھ گدھوں کی ریس سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقعہ ملتا۔ مگر کیا کریں ہمارے عوام کی تفریحات سے کسی بھی حکمران کوکوئی دلچسپی نہیں رہی۔ وہ بس اپنے من پسند مہنگے کھیلوں پرہی توجہ دیتے ہیں۔ غریب غربا میں مقبول کھیلوں پرکسی کی توجہ نہیں جاتی۔ اب جس طرح کرکٹ میچوں ، گھڑ دوڑ ، کاروں اور موٹر سائیکلوں کی ریس پر جوا لگتاہے۔ ساری دنیا جانتی ہے۔ اس بارے میں اکثر کوئی نہ کوئی خبر ملتی ہے کہ شرطیں لگانے والے گرفتار ہو گئے۔ اس طرح گدھا گاڑی ریس پر بھی جوا لگتا ہے۔ کروڑوں میں نہ سہی لاکھوں میں تو ضرور لگتا ہو گا۔ سو ایسا ہی واقعہ خانیوال میں پیش آیا تو وہاں کی پولیس نے جھٹ کارروائی کرتے ہوئے جوا کھیلنے والے 13 گدھا ریڑھی والوں کودھر لیا۔ جوا کھیلنے والا ایک مالک اپنے گدھے سمیت فرار ہو گیا جبکہ ایک گدھا بے چارا گرفتار ہو کر حوالات میں ڈھینچوں ڈھینچوں کرتے ہوئے آنسو بہا رہا ہے۔ دوسری طرف پولیس نے فرار ہونے والے گدھے اور اس کے مالک کو سبق سکھانے یعنی پکڑنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دیدی ہیں۔ شاید خانیوال پولیس کے پاس اور کوئی کام نہیں رہ گیا تھا سو وہ اس اہم کام پر توجہ دے رہی ہے تاکہ جلد از جلد ان دونوں کو گرفتار کر کے سرخرو ہو۔
٭٭٭٭٭
59 میں سے 56 کاسمیٹکس مصنوعات میں مضر صحت اجزا کا ا نکشاف
وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی کی طرف سے کاسمیٹکس میں مضر صحت اجزا استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کا بیان کافی خوش آئند ہے۔ مگر ایک بات ضرور چبھ رہی ہے کہ بھلا محکمہ موسمیاتی تبدیلی کا آرائش و زیبائش سے کیا تعلق۔ شاید جس طرح موسم تبدیل ہوتے ہیں اسی طرح میک اپ اترنے کے بعد جو شکل تبدیل ہوتی ہے۔ اس چیز کا زرتاج گل نے سخت نوٹس لیا ہے اور عوام کو خبردار کیا ہے کہ وہ محتاط رہیں۔ عوام بے چارے کس کس چیز سے محتاط رہیں ۔ یہاں پانی سے لے کر دودھ اور ہر چیز میں حتیٰ کہ دوائوں تک میں مضر صحت ملاوٹ عام ہے۔ مگر یہ کاسمیٹکس کا استعمال چونکہ عورتوں اورمردوں میں یکساں طور پر ہو رہا ہے۔ اس لیے اس سے ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہی نہیں عمر رسیدہ خواتین بھی زیادہ متاثر ہو سکتی ہیں۔ اب وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو خوبصورت نظر آنے کے لیے یہ مضر صحت میک اپ کی اشیاء استعمال کرتی ہیں کہیں کچھ عرصہ بعد منہ چھپاتی نہ نظر آئیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ان تمام کاسمیٹکس تیار کرنے والی فیکٹریوں کو بلڈوز کیا جائے جن کی وجہ سے موسم کی طرح انسانوں کی شکلیں بدلنے لگی ہیں۔ دنیا بھر میں یہ شعبہ نہایت حساس سمجھا جاتا ہے ا ور ہمارے ہاں یہ بھی مال کمانے کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ ایسے حسن کے دشمنوںکو تو فوری طور پر جیلوں میں ڈالنا چاہئے جو ہماری شکلیں بگاڑنے کے درپے ہیں۔
٭٭٭٭٭
لاہور میں ریکارڈ یافتہ پتنگ بازوں اور پتنگ سازوں کو نظربند کرنے کا امکان
ہمارے ہاں ون ویلنگ اور پتنگ بازی پر پابندی اور کریک ڈائون کے اعلانات اتنی بار ہو چکے ہیں کہ پتنگ بازوں اور ون ویلروں پر اب ایسے اعلانات سن کر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ ہنستے کھیلتے ایسے اعلانات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔ پولیس والے جن کو پکڑتے ہیں وہ تگڑے ہوں تو مال پانی لگا کر صاف بچ نکلتے ہیں جو ماڑے بندے ہوتے ہیں ان کو پکڑ کر حوالات پہنچایا جاتا ہے ا ور ان کے خلاف مقدمہ درج ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں بھی اگر کہیں سے کوئی غیبی امداد مل جائے تو ان کی جان چھوٹتی ہے۔ تمام دکھاوے کے اعلانات ا ور رسمی کارروائیوں کے باوجود نہ پتنگ بازی اور پتنگ سازی ختم ہوئی نہ ون ویلنگ کا خاتمہ ہو سکا۔ مقامی انتظامیہ ا ور پولیس بخوبی جانتی ہے کہ کہاں کہاں پتنگیں تیار ہوتی ہیں۔ ڈور بنتی ہے۔ کس کس سڑک پر ون ویلنگ ہوتی ہے۔ مگر پھر بھی کچھ نہیں کرتی۔ شہری اسی طرح پریشان پھرتے ہیں کوئی گلے میں ڈور پھرنے سے اور کوئی ون ویلر کی زد میں آنے سے خوفزدہ نظر آتا ہے۔ اب یا تو ان خطرناک کھیلوںکو قانون کے دائرے میں لا کر انسانوں کے لیے تفریح کا ذریعہ بنانا ہو گا جس طرح پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ یا پھر ان پر سخت پابندی لگا کر پتنگ بازوں اور پتنگ سازوں کو کڑی سزا دینا اور ون ویلروں کی موٹر سائیکل فوری طور پر ضبط کرنا ہو گی۔