جب فرانس کی اشرافیہ کے ایک رکن بیرن۔ڈی۔ کوبڑی نے 1896ء میں اولمپک کھیلوں کے احیاء کا بیڑہ اٹھایا تو اس نے اپنے افتتاحی خطبے میں کھیلوں کے اعراض و مقاصد بتائے۔ ’’کھیل میں ہار جیت ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد کردار سازی ہے۔ کھلاڑی اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بھرپور عمل کا مظاہرہ کرتے،، ’’سپورٹس مین اسپرٹ‘‘ کا مقصد ہی یہی ہے کہ تحمل، برداشت، اور ایمانداری سے کام لیا جائے۔ شروع میں کھیل کو حصول زر یا منفعت کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مقصدملک و قوم کا نام روشن کرنا اور خودکو منفرد اورممتاز کرنا ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ جب سیم و زر کی فراوانی ہوئی تو کھلاڑیوں، قمار بازوں اور سٹہ کھیلنے والوں نے ناجائز حربے اورہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دئیے۔ کھلاڑیوں کو ترغیب و تحریص سے خریدا گیا۔
دنیا میں اس وقت بے شمار کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ فٹ بال، ہاکی رگبی، ٹینس، باکسنگ، والی بال ریسلنگ، گھڑ دوڑ، پولو، گالف اور کرکٹ وغیرہ۔ مقبول ترین کھیل تو فٹ بال ہے جسے ساکر بھی کہا جاتا ہے۔ کرکٹ کی ابتداء برطانیہ میں ہوئی اسے امراء کا کھیل سمجھا جاتا تھا۔ یہ واحد کھیل ہے جو پانچ دن تک چلتا ہے۔ وگرنہ باقی سب کھیل چند گھنٹوں میں ختم ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں اسے پذیرائی نہ مل سکی۔ ہٹلر نے تو اس کی ’’ناجائز،، طوالت کو دیکھتے ہوئے پابندی لگا دی تھی۔ مسلسل تنقید کو دیکھتے ہوئے اب اسے ’’ون ڈے‘‘ اور ’’ٹونٹی ، ٹونٹی،، کی سطح پر لایا جا رہا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ برطانیہ کا بھی مقبول ترین کھیل فٹ بال ہے، کرکٹ نہیں! الزبتھ اول کے زمانے میں بلا ٹیڑھا ہوتا تھا۔ وکٹوریہ کے دور میں سیدھاہو گیا اور اس کو اعلیٰ انسانی اقدار کا استعارہ تصور کر لیا گیا۔ It is not cricket جہاں کہیں بے اصولی ہوتی تو یہ محاورہ بولا جاتا۔
آسٹریلیا اور امریکہ کو برطانیہ کا عم زاد سمجھا جاتا ہے۔ ’’کزنز‘‘ امریکیوں نے جب بغاوت کرکے بوسٹن میں ٹی پارٹی منائی تو برطانیہ کی کرکٹ کو بھی یک بینی دو گوش نکال باہر کیا۔ اس کے برعکس اہل آسٹریلیا نے ملکہ کی طرح کرکٹ کو بھی اعزاز بخشا ایک طویل عرصہ تک یہ کھیل دونوں ملکوں کے درمیان قدر مشترک رہا۔ ایشز سیریز،،میں صرف ایک مرتبہ رخنہ پڑا جب 1930ء کی دہائی میں انگریز باؤلرز نے باڈی لائین بائونگ شروع کی۔ اس کا مقصد وکٹ کی بجائے بلے بازوں کے جسم کو نشانہ بنانا تھا۔ اس وقت آسٹریلیا کا ڈونلڈ بریڈ مین دنیا کا بہترین بلے باز مانا جاتا تھا۔ باڈی لائننگ بولنگ کا مقصد ہی یہی تھا۔ شاید کہ وہ شاطر اسی ترکیب سے ہو مات، آسٹریلیا اس قدر زچ ہوا کہ حکومت نے سفارتی تعقات منقطع کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔
اس کھیل کے عجب نخرے ٹخرے ہیں۔ لوازمات کے اعتبار سے اسے کھیلوں کا محمد شاہ رنگیلا کہا جا سکتا ہے۔ سفید براق لباس میں ملبوس کھلاڑی اسی رنگ کی سویٹر بوٹ اور ٹوپی پہنتے ہیں۔ (جب سے آسٹریلیا کے ٹی ۔ وی ٹائیکون کیری پیکر نے بغاوت کی تو ٹی ۔ ٹوینٹی اور ون ڈے میں رنگوں کی قوسِ قزح اُتر آئی ہے۔ دلفریب چمکیلے بھڑکیلے ملبوسات جو پرانے زمانے میں تھیٹر کے کامیڈین پہنتے تھے۔ ہر گھنٹے کے بعد ڈرنکس بریک ، لنچ ، ٹی AND WHAT NOT ) زرہ بکتر پہنے جب کھلاڑی میدان میں اُترتے ہیں تو کچھ یوں گمان ہوتا ہے جیسے قدیم روم کے جنگجو یا فرانس کے ’’نائیٹ‘‘ ڈومیل کے بیٹے میدان کارزار میں اُتر آئے ہیں۔ لیگ گارڈ، ایب ڈامینل گارڈ، آرمز گارڈ، گلوز ،سر پر آہنی خود اور منہ پر پنجرہ نما ڈھال۔ یہی گیند ہاکی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مگر کھلاڑیوں کو ایک ڈھیلی ڈھالی نیکر پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ پھر ہاکی کی ضرب بال کی چوٹ سے کہیں ز یادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ان کی حرکات بھی عجیب ہوتی ہیں۔ بولر کھلاڑی کو آئوٹ کرنے کے بعد جس قسم کے ’ہاتھوں سے‘ فحش اشارے کرتا ہے، وہ تعزیرات پاک و ہند کی دفعہ 254 کے زمرے میں آتے ہیں۔ بائولر بال کرنے سے پہلے جس انداز میں جسم کے مختلف حصوں کا طواف کراتا ہے وہ بھی شائستگی سے ایک شریفانہ فاصلے پر ہوتا ہے۔ کھلاڑی میچ کے درمیان مغلظات کی ڈکشنری کھنگالتے رہتے ہیں۔ اس میں آسٹریلوی کھلاڑی پیش پیش ہیں۔ مقصد طیش دلا کر مخالف کو مشتعل کرنا ہوتا ہے۔ غصہ کی حالت میں نہ تو شاٹ ماری جا سکتی ہے اور نہ بال کی لائین اور لینتھ ٹھیک رہتی ہے۔ وہ خود چکنے گھڑے ہیں جن پر کسی دشنام کا اثر نہیں ہوتا چونکہ ہمارے کھلاڑی انگریزی زبان کی ’’رفت ۔ بود‘‘ سے آگے نہیں بڑھ پائے اس لیے انہیں اکثر ’’مور ۔ اوور‘‘ کا سہارا لینا پڑھتا ہے۔
یہ کھیل اپنی موت آپ مر جاتا ، اگر اسے برصغیر میں پذیرائی نہ ملتی۔ چار ممالک ، انڈیا ، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، پونے دو ارب لوگوں کا مسکن ، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بھرمار، جو زرکثیر سے اسے سپانسر کرتی ہیں ا ور سب سے بڑھ کر لوگوں کا ذوق شوق، ہندوستان میں تو کھلاڑیوں کوبھگوان کا درجہ دیا جاتا ہے۔ انہیں پوجا جاتا ہے۔ پرستش کی جاتی ہے اور کبھی کبھار جس طرح سال بہ سال مندروں کی مرمت ہوتی ہے اچھا نہ کھیلنے کی صورت میں کھلاڑیوں کی ’’خاطر مدارت‘‘ بھی ہوجاتی ہے۔ پاکستانی اس حد تک تو نہیں گئے بہرحال یہ بھی اپنے کھلاڑیوں سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ اپنے شکستہ مکانوں کی بوسیدہ دیواروں پر ان کی تصویریں لٹکاتے ہیں اور ان کے حق میں ایسے دلائل دیتے ہیں جس سے ان کی ولائیت کا گمان ہوتا ہے۔ محبت عشق کی آخری حدوں کو چُھوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مخالف ٹیم کیسی ہی طاقتورکیوں نہ ہو یہ شرط صرف اپنی ٹیم پر ہی لگاتے ہیں۔ استدلال کیا خوب ہے۔ ’آخر جذبہ حُب الوطنی بھی کوئی چیز ہے!۔ ہمارے اکثر نامور کھلاڑی بھی اپنے مداحوں کو ’’مایوس‘‘ نہیں کرتے۔ ان کی توقعات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کالم ختم ہو جائے گا مگر ایسے مہان لوگوں کے ناموں کی فہرست ختم نہیں ہو گی۔ اس کی ہلکی سی جھلک تو جسٹس قیوم رپورٹ میں نظر آتی ہے۔ باایں ہمہ جسٹس صاحب کے اپنے کردار اور کنڈکٹ کے باوصف ان کا بھی کچھ نہیں بگڑا۔ معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ لوگ ذروں سے آفتاب بن گئے ہیں۔
ورلڈکپ میں بنگلہ دیش کے ساتھ کھیلتے ہوئے جس طرح انہوں نے اپنی قوم کو چکمہ دیا‘ اسپاٹ فکسنگ کی پاداش میں قیدوبند کی جو صعوبتیں برطانیہ میں برداشت کیں‘ بکیوں کی گود میں جس طرح یہ پکی ہوئی کھجور کی طرح گرے‘ عیاری اور مکاری کے جو جو ریکارڈ قائم ہوئے اس کی فہرست طویل بھی ہے اور اذیت ناک بھی۔ اب اس ضمن میں ایک واقعہ کا ذکر نشر مکرر کے طورپر بیان کرنا ضروری ہے۔ ایک بکی جن کی قوم خنجر کے معنوں میں مستعمل تھی‘ بتانے لگے ’’ہم نے میچ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ایک نامور بیٹس مین کو دس لاکھ روپے کی آفر کی۔ وہ فوراً مان گیا۔ بطور حفظ ماتقدم اسے دوسرے بلے باز سے بھی سازباز کا کہا۔ اس پر وہ ترنت بولا ’’اس توتلے کو پیسے دینے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ بھی مجھے دیدیں۔ میں اسے رن آئوٹ کرا دوں گا۔‘‘؎ قیاس کن گلستان من بہار مرا
ہندوستان کی پرانی کھیلوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ کسی زمانے میں ہاکی بڑا مقبول کھیل تھا۔ دھیان چند کے قصے ایک طویل عرصہ تک زبان زد خاص و عام رہے۔ یوں گمان ہوتا تھا جیسے بال ہاکی کا حصہ ہے۔ اس سے الگ ہی نہیں ہوتا تھا۔ ہاکیاں تبدیل ہوئیں۔ بال بدلے گئے‘ لیکن خالصے کی مہارت میں کچھ فرق نہ آیا۔ گاما بھولو رستم زمان تھے۔ زبسکو بے بس ہو گیا۔جہانگیر اور شیرجان جب اپنی کچھار سے ڈکارتے ہوئے نکلتے تو دنیائے سکواش پر لرزہ طاری ہو جاتا۔ جب پاکستان 1984ء میں لاس اینجلس میں ہاکی کا ورلڈکپ جیتا تو سارے امریکہ سے آئے ہوئے پاکستانیوں کا جذبہ دیدنی تھا۔ میں اس وقت ایسٹ‘ ایل اے کالج کے ہاکی میدان میں موجود تھا۔ لوگ ہنس رہے تھے۔ خوشی سے رو رہے تھے۔ ایک دوسرے سے بغیر واقفیت کے بغلگیر ہو رہے تھے۔ اس وقت کوئی پنجابی نہ تھا‘ سندھی نہ تھا۔ بلوچ اور پٹھان نہ تھا۔ فضا میں چار سو ایک ہی نعرہ گونج رہا تھا۔ اللہ اکبر۔ پاکستان زندہ باد۔وہ جو کہتے ہیں حقیقت میں نہیںہوتی جوہے بلکہ وہ ہوتی ہے جسے عوام ایسا سمجھیں۔ فی الوقت حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ پاکستان کا مقبول ترین کھیل ہے۔ ہاکی کو طاق نسیاں میں ڈال دیا گیا ہے۔ نتیجتاً ہماری قومی ہاکی ٹیم یورپ کی کسی کلب ٹیم کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کھلاڑیوں کیساتھ ساتھ ’’ہاکی اسٹک‘‘ کی کمر بھی ٹوٹ چکی ہے۔ پہلوانی قصہ پارینہ بن گئی ہے۔ وہ جو خودساختہ رستم زماں ہیں وہ کشتی طاقت سے نہیں بلکہ بدمعاشی کے زور پر لڑتے ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ جو ملک دنیا کے بہترین فٹبال اور ٹینس ریکٹ بناتا ہے اس کی ٹیمیں صرف کاغذوں پر دکھائی دیتی ہیں۔ گلی ڈنڈا محض تمسخر کی علامت بن گیا ہے۔ طنزاً کہا جاتا ہے تم کرکٹ نہیں گلی ڈنڈا کھیلا کرو۔ اسکواش کے کھیل میں ہمارے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے ہیں۔ ترکی معکوس!
کرکٹ ٹیم کا گراف دیکھیں تو ابھرتی ڈوبتی رہی ہے۔ کوئی اچھا چیئرمین یا کپتان آگیا تو کھلاڑیوں کی سوئی ہوئی صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔ اگر سلیکشن سیاسی ہوئی تو جذبے سو جاتے ہیں۔ کاردار اور نورخان کے بعد کوئی چیئرمین میرٹ پر نہیں آیا۔ آئے بھی تو ’’ پنکچروں والے‘‘ اوربابا ’’یار‘‘ بقول شخصے’’جتنی دیر میں کرسی سے اٹھتے اتنی دیر میں ایک قدآدم دیوار اٹھائی جا سکتی تھی۔ اعجازبٹ جسے کسی ریسلنگ ٹیم کا منیجر ہونا چاہئے تھا۔ ذکا اشرف کی واحد کوالیفکیشن زرداری سے وفاداری تھی۔ خالد محمود کو نوازشریف کا مصاحب ہونے کا شرف حاصل تھا۔ کپتانوں میں عمران خان جیسے قسمت کے دھنی بھی آئے جن کی صلاحیتوں میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی تھا۔ ماجد خان جو اپنی اصول پرستی کیلئے مشہور تھا‘ آصف اقبال‘ کاردار‘ حنیف محمد وغیرہ اور اب خیر سے سرفراز آئے ہیں۔ ایک کھلاڑی کو کالا کہنے پر معطل ہو گئے ہیں۔ ہمارے دوست ملک صاحب کہنے لگے It was The Case of Cattle Calling The Pot Black.
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024