اصل بھارتی گھنائونا چہرہ دیکھنا ہو تو بھارت کے اندر جنونی قاتل بزدلوں کے جتھوں کی بڑھکیں دیکھیں، اس وقت پورے بھارت میں کشمیری مسلمانوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنایاجارہا ہے۔ انہیں بھارت سے نکال کر واپس کشمیر بھیجا جارہا ہے۔ یہ عمل ثابت کرتا ہے کشمیر نہ تو انڈیا کا حصہ ہے اور ان ہی مسلمان کشمیریوں کا مستقبل انڈیا میں محفوظ ہے۔ اب بھی اگر کسی کو شک ہے انڈیا سیکولر ہے اور مسلمان محفوظ؟ تو بندہ اسکی عقل پر ماتم ہی کرسکتا ہے۔ پلوامہ واقعے کے بعد بھارتی علاقے ملانہ میں رہائش پزیر کشمیریوں کے خلاف جلوس نکالاگیا اور باضابطہ انکے اور جنہوں نے کرائے پر انہیں گھر دے رکھے ہیں، انکے گھروں کا گھیرائو کرکے اعلان کیا گیا اور خبردار کیاگیا کہ چوبیس گھنٹے میں گھر خالی نہ ہوئے، اور انہیں گھروں سے نہ نکالنے والا غدار قرار دے کر اْنکے گھروں کے باہر دھرنا ہوگا۔ کہاگیا ’’مت بھولیں تم لوگ بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہو۔ جب ہمارے جوان شہید ہوئے، تو یہ لوگ لڈو بانٹ رہے تھے۔ ‘‘
بھارتی مظالم کے خلاف جموں وکشمیر کی سکھ برادری نے بھی اعلان حریت کردیا ہے۔ قابض بھارت کے خلاف اعلان حق کرتے ہوئے جموں وکشمیر سکھ کلچرل انٹیلیکچوئل سرکل تنظیم کے چیئرمین نریندر سنگھ خالصہ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سری نگر کے مشہور لال چوک میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’سکھ انٹرنیشنل سرکل، شومنی اکالی دل امرتسر، سکھ سٹوڈنٹس انٹرنیشنل ، انٹرنیشنل سکھ فیڈریشن سمیت تمام مقامی اور بین الاقوامی سکھ تنظیمیں جموں وکشمیر کے مسئلے کی حمایت کرتی ہیں۔ سکھ برادری کی تمام بنیادی تنظیمیں کشمیری عوام کی حمایت کا اعلان کرتی ہیں۔‘ انہوں نے کہاکہ ’سکھوں کی ٹیم نے پوری مقبوضہ وادی کا دورہ کیا، ہم عوام سے ملے، جن لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں، انکے گھروں میں گئے، پیلٹ گن سے جن لوگوں کو زخمی کیاگیا، ان کو دیکھنے ہسپتال بھی گئے، اور آج ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم حق خودارادیت کی حمایت کرینگے، یہاں کی سکھ برادری جموں وکشمیر میں استصواب رائے کی مکمل حمایت کرتی ہے۔‘نریندر سنگھ خالصہ نے کہاکہ ’ہندوستان دیوار پر لکھا پڑھے، وہ ظلم وجبر سے مسئلہ کشمیر کو دبا نہیں سکتا، بھارت یہاں فوری مذاکرات شروع کرے۔ پاکستان، بھارت اور کشمیر کے عوام میں بامعنی مذاکرات ہونے چاہئیں۔ انہوں نے جموں وکشمیر کے سکھوں کی طرف سے کشمیریوں کی مشترکہ مزاحمتی قیادت کے پروگرام کی بھی حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ سکھ برادری پرامن سیاسی احتجاج کی حمایت کرتی ہے‘ تمام سکھوں کو اپیل کرتے ہیں کہ وہ بھی اس تحریک میں شامل ہوجائیں۔ انہوں نے پوری دنیا سے اپیل کی کہ خاص طور پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر زوردیا کہ ’وہ آکر دیکھیں کہ آج کشمیر میں کیا ہورہا ہے؟ کشمیر میں کس طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں؟ اس ظلم سے ہندوستان کو روکا جائے اور یہاں پر فوری مذاکرات شروع کئے جائیں۔ہم استصواب کے ساتھ ہیں۔ یہ نہیں کہ آج ہم لال چوک سے کھڑے ہوکر یہ کہہ رہے ہیں۔ ہماری مرکزی اور بین الاقوامی سطح پر تنظیموں کا شروع سے یہ موقف رہا ہے، جو وعدہ ہندوستان نے کشمیریوں سے کیا ہے،اسے پورا کیا جائے ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔‘ بھارتی پنجاب اور ہریانہ کے سکھوں نے بھارتی شرپسندوں اور جنونیوں کی چیرہ دستیوں اور غنڈہ گردی پر پوری قوت سے جواب دیا ہے اور مسلمانوں اور کشمیریوں سے کہا ہے کہ اگر کوئی ان کو تنگ کرے گا تو وہ اس کا منہ توڑ جواب دیں گے اور انکی مدد کریں گے۔ یہ رنگ پہلی بار دیکھا جارہا ہے۔ دلنشیں پنجابی میں ریکارڈ کردہ اپنے وڈیوپیغام میں ان دلیر اور وفاشعار سکھوں کا کہنا تھا کہ ’’جموں وکشمیر کے بھائیوں کے ساتھ بہت ظلم ہورہا ہے۔ انکی گاڑیاں توڑی جارہی ہیں اور دکانیں بند کرائی جارہی ہیں۔ مسلمان اور کشمیری بھائی ایسی کسی بھی صورتحال میں ہمیں فون کریں، ہم آپکی مدد کریں گے اور ان جتھوں کو غنڈہ گردی سے روکیں گے۔ ہماری استدعا ہے کہ کسی مسلمان یا کشمیری کا نقصان کیاگیا یا دھمکی دی گئی تو ہم منہ توڑ جواب دینگے۔ تشدد پسندوں کو خبردار کرتے ہیں کہ غریب ڈرائیوروں، دکانداروں کو تنگ نہ کریں، بھارت کو اپنا غنڈہ راج سمجھ کر ظلم وزیادتی نہ کریں۔ ورنہ تم لوگ چیخیں بھی بہت جلدی مارنے لگتے ہو۔ پنجاب ہریانہ میں ایسا کوئی قدم اٹھایاگیا تو ’ٹھوکواں جواب دواں گے۔ ‘‘کانگریس سے تعلق رکھنے والے بھارتی پنجاب کے وزیر بلدیات و سابق کرکٹر ، بابا جی گرونانک مہاراج کے ’سچے بالک‘ بن کر ابھرنے والے نوجوت سنگھ سدوھو پر بھی جنونی بھارتی پل پڑے ہیں، اس نے پلوامہ واقعہ پر بین کرتی بھارتی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے سوالات کھڑے کردیئے تھے۔ نوجوت سنگھ سدھو نے پلواما واقعے کے بعد کرتار پور بارڈر مسئلے کیلئے تشویش کا اظہار بھی کیا۔اس نے کہا کہ جب کوئی سیاست دان جاتا ہے تو شہر جام ہوجاتے ہیں۔ ہماری حفاظت کرنیوالے جوانوں کی حفاظت کا خیال کیوں نہیں رکھا جاتا؟ جب تین ہزار جوان جاتے ہیں تو ٹریکر کیوں نہیں چلتا؟ فوجی جوانوں کو صبح سویرے 3 بجے بذریعہ ہوائی جہاز کیوں نہیں لے جایا گیا؟ سارا دیش ایک ہو کر لڑ رہا ہے لیکن کیا ان تین چار لوگوں کی وجہ سے کرتار پور پر سوالیہ نشان لگے گا؟ وزرائے اعظم کے کیے گئے اقدامات پر سوالیہ نشان لگے گا؟ نوجوت سنگھ سدھو بابانانک کے چرنوں کی دھول ہے۔ بابانانک کا فلسفہ پوری دنیا جانتی ہے، اسے کوئی ایک انچ بھی نیچا نہیں کرسکتا۔ بابانانک کی فلاسفی کیلئے نوجوت سنگھ سدھو ٹھونک بجاکر کھڑاہوگا۔
پلوامہ واقعہ کے بعد بھارتی جنگی مشق کی نوٹنکی بھی شروع ہوگئی ہے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق پلوامہ واقعہ کے دو روز بعد بھارتی فضائیہ نے 140 لڑاکا طیارے، حملہ آور ہیلی کاپٹر اور بڑے پیمانے پر میزائل پاکستانی سرحد کے قریب اپنی مشق میں استعمال کئے ہیں۔ بھارتی پاکستان کے اس واقعے میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت ہونے کے دعوے اور گیدڑ بھبکیاں دے رہے ہیں لیکن اب تک یہ ثبوت سامنے نہیں لاسکا۔ بھارتی وزیراعظم نے فوج کو اجازت دیدی ہے کہ وہ اس حملے کا مناسب جواب دے۔ پاکستان نے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور اس کی مذمت بھی کی تحقیقاتی کمشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ایک سوال یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ بھارت کی ڈرامہ بازی پر پاکستان کو دباو میں نہیں آنا چاہئے اور اس واقعے کی مذمت نہیں کرنی چاہئے تھی۔ استدلال یہ ہے کہ بھارت نے اسی طرح جموں وکشمیر پر قبضہ کررکھا ہے جیسے انگریز نے برصغیر پر ، فرانس نے الجیریا پر کیاتھا۔ قبضہ کرنے والوں کے خلاف حریت پسندوں کے حملے تاریخ اور عالمی قانون سے ثابت ہیں۔ امریکی صدر تھامس جیفرسن کے 1776ء میں اعلان آزادی، جنوبی افریقہ کے نیلسن مینڈیلا، کیوبا کے فیدل کاسترو، شی گویرا، احمد بن بلّا، الجیریا کے پہلے صدر حواری بومیدین، سوبھاش چندرابوس المعروف نیتا جی یہ سب وہ نام ہیں جنہوں نے قابض ملک کی فوج کے خلاف جنگی اور مسلح کارروائیاں کیں۔ مہاتما گاندھی نے انگریز فوج کے خلا ف بغاوت کرنے والے سوبھاش چندرا بوس کو نیتاجی کا لقب دیا۔ آج پورا بھارت انہیں آزادی کے ہیرو کے طورپر نیتا جی کے نام سے جانتا ہے تو کیا وہ بھی دہشت گرد تھے؟اسرائیل اور بھارت نے اپنے قبضے کو جائز قرار دلانے کیلئے دہشت گردی کے بہانے کو خوب اچھی طرح استعمال کیاہے۔ ان کی کوشش ہے کہ اس بہانے کی آڑ میں نہتے ومظلوم فلسطینیوں اور کشمیریوں سے ان کی سرزمین اور ان کی زندگی واملاک سب کچھ چھین لیا جائے اور انہیں قتل کرکے اس تحریک کو کچل دیا جائے۔ لبریٹو اور شردھالوئوں سے حکومت شاید گھبراہٹ کا شکار ہے، اس پر کوئی آل پارٹیز کانفرنس ہوئی نہ حکومتی سطح پر کوئی اعلی سطحی مشاورت، بس بیانات پر معذرت خواہانہ مذمتی بیانات داغنے کا سلسلہ جاری ہے جو دانائی نہیں حکومت پاکستان کو پہلے مضمرات پر غور کرتے ہوئے دانائی و جرأت پر مبنی موقف اپنانا چاہئے ۔ (ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024