آبادی ہمیشہ سے دنیا میں قوت و طاقت اور معاشی و سیاسی استحکام کا ذریعہ سمجھی گئی ہے لیکن آج ایک عالمی ایجنڈے نے بڑھتی ہوئی آبادی کو خوف کی علامت بنادیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے مخصوص مقاصد کیلئے ترقی پذیر اور معاشی طور پر کمزور ممالک کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی ان کی معیشت ہی نہیں ، انکے وجود کیلئے بھی خطرہ بن سکتی ہے اسی ایجنڈے کے تحت 1973 ء سے اقوام متحدہ نے کنٹرول آبادی کو ایک عالمی پالیسی بنا دیاہے ۔ اسی کیمطابق ترقی پذیر ممالک سے آبادی کنٹرول کرنے کی یقین دہانیاں لی جاتی ہیں اور قرض و ترقیاتی فنڈز کیلئے تخفیف آبادی کے اہداف کو بطور شرط منوایاجاتاہے ، حالانکہ اصل مسئلہ آبادی نہیں ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے ۔ وسائل بھی خالق کائنات کے عطا کردہ ہیں اور خود اسی کی طرف سے آبادی کا کنٹرول بھی اسکی حکمت و مشیت کا اہم حصہ ہے اس لیے کہ ہر ذی روح کے رزق کا ذمہ اللہ رب العالمین نے خود لیاہے اور دنیا میں کمانے والے ہاتھ اور کھانے والے منہ کتنے ہونگے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد کے درمیان توازن و اعتدال کیسے ہوگا ۔ شرح پیدائش اور شرح اموات کا فارمولا کیا ہوگا؟؟ یہ اس کی ہی تقدیر کے فیصلے ہیں اور انسانوں نے جب بھی ان معاملات میں مصنوعی مداخلت کی کوشش کی ہے اس سے اتنے بڑے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوئے ہیں ، جنہوں نے پورے معاشرے کے تارو پود بکھیر دیے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں نا م نہاد کنٹرول آبادی مہم کے نتیجہ میں ورکنگ اور نوجوان لیبر فورس کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے ۔ ساٹھ سال سے زائد عمر کی آبادی 1990 ء میں 50 کروڑ تھی جو 2017 ء میں 96 کروڑ ہو گئی اور 2030 ء میں ایک ارب40 کروڑ ہو جائیگی ۔ چین میں ایک بچہ پالیسی کی وجہ سے گزشتہ دہائیوں میں 40کروڑ کم بچے پیدا ہوئے ہیں اور لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد اتنی کم ہو چکی ہے کہ اب شادی کی عمر کے 5 نوجوانوں کیلئے محض ایک لڑکی موجود ہے جس کی وجہ سے جرائم اور فحاشی بڑھ گئی ہے ۔ کنواروں کے گائوں کے گائوں سامنے آرہے ہیں ۔ 1993 ء سے مسلمانوں کی شرح پیدائش کو بالخصوص خطرہ ظاہر کر کے مسلمان ممالک کو خصوصی ہدف بنایا گیاہے ۔ چونکہ پاکستا ن میں نوجوان آبادی کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے ،اس لیے پاکستان کو بالخصوص نشانہ بنایاجارہاہے ۔
جب اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ دنیاکے 94 ممالک میں انسانی شرح پیدائش ضرورت سے کم ہونے کو انتہائی خطرناک قرار دے رہاہے اور ان تمام 94 ممالک کو اپنی اپنی آبادی میں اضافہ کی ہدایت جاری کر چکاہے ، پاکستان میں افسر شاہی ، این جی اوز اور حکومتی سطح پر آبادی کو کنٹرول کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں اور اس کیلئے باقاعدہ پالیسی سازی اور شہریوں کو مراعات دینے جیسے معاملات زیر غور بتائے جارہے ہیں ۔قوم جاننا چاہتی ہے کہ وہ کون سے مقاصد ہیں جن کے حصول کیلئے اس طرح کی پالیسی بنائی جارہی ہے جسے خود اقوام متحدہ مسترد کر چکاہے ۔ ہم حکومتی شہ دماغوں کی توجہ اس جانب بھی مبذو ل کرانا چاہتاہے کہ چین میں ایک بچہ پالیسی کی ناکامی کے بعد چینی حکومت نے اس پالیسی کو واپس لے لیاہے ، البتہ اس پالیسی کے نتیجہ میں چینی معاشرے میں جو توڑ پھوڑ ہوئی ہے ، اسکے اثرات اس جدید ترقی یافتہ ملک کو کئی دہائیوں تک برداشت کرنا پڑینگے ۔
پاکستان میں غربت اور معاشی بدحالی کے اصل اسباب قومی وسائل پر ظالم اشرافیہ کا قبضہ ، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ، کھربوں روپے کی بدترین کرپشن ، قومی دولت کی لوٹ مار اور حقیقی نظام احتساب کی عدم موجودگی ہے اسی وجہ سے غریب پینے کے صاف پانی ، د و وقت کی روٹی ، سر چھپانے کیلئے چھت اور تعلیم و علاج سے محروم ہیں جبکہ لوٹ مار کرنے والا یہی طبقہ غریبوں کو ہی انکے زیادہ بچوں کی وجہ سے اپنی غربت کا ذمہ دار قرار دیتاہے ۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ وسائل اور جفاکش و محنتی لوگوں سے نوازا ہے ۔ دنیا بھر میں پاکستانی اپنی خدا داد صلاحیتوں کی وجہ سے اپنا ایک مقام و وقار رکھتے ہیں لیکن اللہ کے نظام سے روگردانی کی وجہ سے آج ملک میں بھوک، غربت اور بے روزگاری ہے۔
کنٹرول آبادی کی اس مہم کے نتیجہ میں اسقاط حمل کی شرح میں اضافہ ہونے سے خواتین کی زندگی و صحت کے مسائل نے جنم لیاہے ۔ مانع حمل اشیا ء کی سرکاری سطح پر دیہاتوں تک آسان دستیابی و رسائی نے معاشرے میں بے راہ روی کو فروغ دیا ہے ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسلام نے ماں بچے کی صحت کو یقیناً مد نظر رکھا ہے اور اسی مقصد کیلئے مائوں کو کامل دو سال بچے کو دودھ پلانے کا حکم ہے ۔ اسی طرح ماں بچے کی صحت اور بچوں کی تعلیم اور صحیح تربیت کے پیش نظر ایک فیملی بچوں میں وقفہ کا فیصلہ کر سکتی ہے لیکن یہ سب کچھ خالص فرد کے مسائل اور فیصلے ہیں ۔ ریاست کو فرد کی ذاتی اور خاندانی زندگی میں مداخلت کا قطعاً کوئی حق نہیں ۔ ملک و قوم کی فلاح اس میں ہے کہ حکومت آبادی پر کنٹرول کی پالیسی کو فوری طور پر ترک کرے اور نوجوان آبادی کو معیشت کے استحکام کیلئے ایک قوت بنانے کو قومی ترجیح بنائے اور اس کی موثر پلاننگ کی جائے ۔زچہ و بچہ کیلئے زیادہ سے زیادہ مراکز قائم کیے جائیں تاکہ دوران زچگی ماں یا بچے کی اموات پر قابو پایا جاسکے ۔ بنیادی مراکز صحت اور رورل ہیلتھ سنٹرز کو جدید طبی سہولیات فراہم کر کے اپ گریڈ کیا جائے ۔
قومی معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے زراعت میں فی ایکڑ پیداوار دوگنا کرنے ، ایگرو بیسڈ انڈسٹری اور لائیو سٹاک کو فروغ دینے ، گھریلو صنعتوں اور سمال و میڈیم انڈسٹری کو مستحکم کرنے اور برآمدات بڑھانے کی طرف توجہ دی جائے ۔ جاگیر داری نظام کے خاتمے ، امارت و غربت میں تفاوت کو کم کرنے ، کرپشن پر قابو پانے کیلئے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ سودی معیشت کے خاتمے اور اسلامی نظام معیشت کے نفاذ کے آئینی تقاضے فی الفور پورے کیے جائیں ۔
اگر حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان ترقی کرے تو اسے ساٹھ فیصد سے زائد بنجر پڑی زمین کو قابل کاشت بناناہوگا ۔ پاکستان کے 95 فیصد وسائل دو فیصد اشرافیہ کے پاس ہیں وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا چاہیے۔ ملک کا بنیادی مسئلہ انصاف ، تعلیم اور علاج کی سہولتوں کی عدم فراہمی ، ملاوٹ اور کرپشن ہے ۔یہاں ریاست معصوم بچوں اور لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنا دیتی ہے ۔ تعلیم اور علاج کی فراہمی حکومت کے کسی پروگرام میں نہیں ۔ جس طرح 5دسمبر 2018کو سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے زیر اہتمام ’’ الارمنگ پاپولیشن گروتھ ان پاکستان‘‘ کے عنوان سے سپریم کورٹ کے احاطہ میں آبادی پر کنٹرول کیلئے سیمینار کیا تھا ، لیکن تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے کا کسی کو موقع نہیں دیا گیا ۔حکمران غیر ترقیاتی اخراجات کم کرکے سادگی اختیار کریںاور اسلام کا معاشی نظام اختیار کرلیں تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے مگر حکمران عالمی استعمار کے خوف سے اس طرف تو قدم اٹھاتے نہیں اور آبادی زیادہ ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں ۔ علمائے کرام اور آئمہ حضرات بھی معاشرے میں تعلیم و صحت کی اہمیت ، بچوں کی پرورش و نگہداشت اور اولاد کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے منبر و محراب کی قوت کو بروئے کار لائیں ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024