اس ملک میں انصاف اور ایمانداری کا جتنا فقدان ہے۔ اسی قدر میرٹ اوراعلیٰ تعلیم کا بھی رونا رویا جاتا ہے۔ ہمارے سسٹم کی ناکامی کی بڑی وجوہات میں جہاں اہل اور قابل لوگوں کی کمی ہے وہاں حقیقی تعلیم اور جائز ڈگریوں کا حصول بھی ایک المیہ ہے۔ جعلی ڈگریوں کے بل بوتے پر جب ملک کے اہم عہدوں پر بُودے اور نکمّے لوگوں کا ٹولہ بیٹھا ہو گا تو ظاہر ہے کہ سسٹم بیٹھ جائیگا۔ پے درپے ناکامیاں اورابتریاں منہ چڑائیں گی۔ ایک طرف پورے ملک میں جہاں کئی دہائیوں سے کرپشن کا راج رہا ہے وہاں اس سے بھی زیادہ ابتر اور ناروا سلوک پاکستان کے اہل قابل اور نابغۂ روزگار افراد کے ساتھ تقسیم کے وقت سے چلا آ رہا ہے۔ اس سے زیادہ کسی ملک کی بیحرمتی ، بدنصیبی اور بدبختی کیا ہو گی کہ ملک کا سب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ ناانصافی اور ناقدری کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ اس ملک میں میٹرک اور انٹر بی اے فیل تو پارلیمنٹ کے ارکان بن جائیں۔ مشیر اور وزیر بن جائیں۔ قائمہ کمیٹیوں کے سربراہ اور رکن بن جائیں۔ حد تو یہ ہے کہ اخبارات، چینلز ، بڑی بڑی انڈسٹریوں، فیکٹریوں، شوگر ملوں اور حکومتی اداروں کے چیئرمین ڈائریکٹر بنکر لاکھوں روپے تنخواہ بٹوریں، لاکھ دو لاکھ روپے ماہانہ کی رہائش کرائے پر لیکر رہیں۔ ترقیاتی فنڈز اور دیگر اخراجات میں ہیرپھیر کریں۔ پی آر شپ سے فوائد اور وظائف حاصل کریں۔ غیر ملکی دوروںسے لطف اندوز ہوں اور حقداروں کی جگہ بڑے عہدوں پر وہ لوگ ہوںجن کی تعلیم واجبی، ناقص تجربے، کم علمی اور کم اہلیت ہو۔ پاکستان کے ترقی نہ کرنے کی بڑی وجوہات میں سے ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ تعلیم کا شوشہ چھوڑ کرتعلیم کے نام پر جو کاروبار کیا جا رہا ہے اور ہر سال سینکڑوں لوگںکو ایم فل، پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ریوڑیوں کی طرح بانٹی جا رہی ہیں۔ ایچ ای سی کو انکے متعلق سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ میں ابتک بطور وزیٹنگ فیکلٹی سات یونیورسٹیوں میں پڑھا چکی ہوں اور تعلیم کا جو پست ترین معیار میں نے پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں دیکھا ہے بلکہ تعلیمی معیار کی بدترین صورتوں میں گورنمنٹ کی یونیورسٹیاں بھی سرفہرست ہیں۔ وزیٹنگ فیکلٹی کو تو لیموں کی طرح نچوڑ لیا جاتا ہے بلکہ بس نہیں چلتا کہ انکے چھلکوں کا بھی سفوف بنا کر پھانک لیں جبکہ تین یا چھ ماہ بعد ایک حقیر سا چیک دیا جاتا ہے جو اس قدر معمولی ہوتا ہے کہ کسی گائوں کے پرائمری سکول کے ٹیچر کی ماہانہ تنخواہ سے بھی کم ہوتا ہے۔ دوسری طرف ریگولر سٹاف ہے۔ یہ لوگ جب مرضی یونیورسٹی آتے ہیں اور جب دل چاہے کلاس لیتے ہیں۔ وہی رٹا رٹایا سلیبس پڑھاتے ہیں اور انکی تنخواہیں ایک لاکھ سے چھ سات لاکھ روپے تک ہیں۔ الائونس ، فنڈز، پنشن اور مراعات الگ ملتی ہیں۔ ایم فل کر لیں تو پانچ ہزار اور پی ایچ ڈی کر لیں تو دس ہزار ماہانہ الگ ملتے ہیں جو لوگ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں پڑھاتے ہیں، انہیں نہ تو ایم فل، پی ایچ ڈی الائونس ملتا اور نہ ہی تنخواہ کے نام پر معقول معاوضہ ملتا جبکہ ہم لوگوں کا پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں پڑھانے کا تجربہ کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ پڑھانے کا طریقہ کار بھی جدید، دلچسپ اور معلوماتی ہوتا ہے۔ گورنمنٹ اور ریگولر سٹاف کی طرح روایتی، فرسودہ اور دقیانوسی نہیں ہوتا۔ جو بھی شخص ڈاکٹریٹ کرتا ہے وہ سولہ سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی زندگی کے آٹھ قیمتی سال وقف کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرتا ہے لیکن مراعات، عنایات، انعامات ، فوائد اور فیوض کیلئے صرف گورنمنٹ سیکٹر کو مختص کر دیا گیا ہے۔ ایک تو پی ایچ ڈی ہولڈرز کو جاب نہ دینا کسی بھی حکومت کیلئے کلنک کا ٹیکہ ہے کہ وہ حکومت اس قدر پست درجے کی اور جاہل ترین ہے کہ اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل ترین لوگوں کی خدمات اور تجربات سے فیض یاب نہیں ہو رہی، اپنے ملک کے جوہر قابل افراد کو ان کی محنت ذہانت تعلیم اور تجربے کے مطابق روزگار فراہم نہیں کر رہی، اس پر ایچ ای سی کو چاہئے کہ وہ تمام پی ایچ ڈی ہولڈرزکا بائیو ڈیٹا لے۔ جن کے پاس روزگار نہیں ہے اور جنہیںحکومت یا ایچ ای سی جاب فراہم نہیں کر سکے ہیں۔ انہیں سب سے پہلے تو روزگار فراہم کرے وگرنہ جب تک پی ایچ ڈی کو اسکی تعلیم اور تجربے کے مطابق جاب نہیں مل جاتی تو ایک لاکھ روپے کا وظیفہ مقرر کرے۔ ڈاکٹریٹ کر کے بھی امیدوار فقیروں کی طرح اپنے لئے نوکری تلاش کرتا رہے تو یہ اس مک کی حکومت کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے اور گورنمنٹ یونیورسٹیوںکا یہ حال ہے کہ دکھاوے کیلئے پورے صفحے کا اشتہار دے دیتی ہیں۔ اور ان میں جہاں درخواست کے ساتھ امیدواروں سے رقمیں بٹورتی ہیں وہاں کڑی شرائط کے ساتھ اتنے پیچیدہ فارم بناتی ہیں اور زرا زرا سی چیز پر لمبی چوڑی معلومات مانگتی ہیں۔ سینکڑوں افراد درخواستوں کے ساتھ دو تین چار ہزار کے ڈرافٹ جمع کراتے ہیں اور دو تین دن میں ایک فارم پر کرتے ہیں انہیں Attest کراتے ہیں۔ بیروزگار امیدوار درخواستیں تیار کر کے آدھا رہ جاتا ہے۔ ابتداء میں صرف بنیادی معلوماتی لینی چاہئیں جب امیدوار منتخب ہو جائے تب تمام اور مکمل کوائف طلب کرنے چاہئیں۔ پھر بھی یہ ہوتا ہے کہ یونیورسٹی اپنے منظور نظر اور پسندیدہ امیدواروں کو پہلے سے رکھ چکی ہوتی ہے۔ انٹرویو محض خانہ پُری کیلئے کئے جاتے ہیں۔ بار بار ریسرچ پیپرز مانگے جاتے ہیں۔ اول تو یہ نام نہاد ریسرچ پیپرز چھپنے کے مراحل میں جو شرمناک کہانیاں ہیں۔ چیئرمین کو اگر پتہ چل جائے تو وہ ریسرچ پیپرز کی شرط فوراً ختم کر دیں۔ چیئرمین اگر اپنے پی ایچ ڈی ہولڈرز کو جاب نہیں دلوا سکتے تو پھر پاکستان میں پی ایچ ڈی بند کر دیں بلکہ ایچ ای سی کا دفتر بھی بند کر دیں۔ کیا فائدہ جب آپ اپنے لوگوں کا تحفظ نہ کر سکیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024