حکومتوں کی ذمہ داریوں میں عوام اور ملازمین کا تحفظ بھی شامل ہے۔ حکومتیں یہ ذمہ داری وسائل میں رہتے ہوئے پوری کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔سرکاری ملازمین کیلئے صوبائی و مرکزی حکومتوں نے کچھ رہائشی کالونیاں بھی بنا رکھی ہیں۔ لاہور میں صوبائی حکومت کے ملازمین کیلئے سب سے بڑی سرکاری رہائش گاہ شہر کے وسط میں وحدت کالونی ہے جبکہ مرکز کی طرف سے اپنے ملازمین کیلئے حکومت نے لاہور میں جوہرٹاون سے متصل وفاقی کالونی تعمیر کی۔انیس سو چوراسی 85 میں وفاقی کالونی کی تکمیل پر اسے سٹیٹ آفس کے حوالے کردیا گیا جبکہ اس کی نگرانی پی ڈبلیو ڈی کے ذمے ہے۔اُس دور میں اس کالونی کا افتتاح ہاؤسنگ اور ورکس کے وفاقی وزیر سید یوسف رضا گیلانی نے کیا جو بعد میں قومی اسمبلی کے سپیکر اور پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ افتتاح کے سوا سید یوسف رضا گیلانی کا اس کالونی کے حوالے سے کوئی تعلق اور کردار نہیں۔
وفاقی کالونی بہترین سرکاری رہائش گاہوں میں شمار ہوتی تھی۔ تمام سرکاری گریڈ کے افسروں کے شایان شان اورلوئر گریڈ کے ملازمین کی ضروریات کے مطابق کوارٹر بنائے گئے ہیں۔ کھلی اور صاف ستھری سڑکیں تھیں مسجد اور مارکیٹ تعمیر کی گئی۔ مارکیٹ جدید دور کی سہولتوں سے اور ضروریات سے مزین تھی۔اس مارکیٹ کے اندر جتنی بھی دکانیں تھیں سب کے دروازے مارکیٹ کے اندر کھلتے ،اندر جانے کیلئے گیٹ لگے ہوئے تھے۔لوگ باہر اپنی بائیک یا گاڑیاں پار ک کرکے اندر جاتے اور اپنی ضروریات کی چیزیں خرید کر لے آتے۔ باربر دھوبی اور موچی وغیرہ کی دُکانیں بھی مارکیٹ کے اندر ہی تھیں۔ جیسا کہ عرض کیا ہے اس مارکیٹ کا انتظام اسٹیٹ آفس کے حوالے جبکہ اس کی نگرانی پاک پاک پی ڈبلیو ڈی کی طرف سے کی جاتی ہے۔کچھ عرصہ سے ایک عجیب سی صورتحال بنی ہوئی ہے جو کالونی کے معاملات دیکھنے والوں کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو حیران کن جبکہ یہاں کے رہائشیوں کیلئے پریشان کن ہے۔دکانداروں نے اپنی مرضی سے یا انتظامیہ سے اجازت لے کے جسے ملی بھگت کا نام دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے، اپنی ان دکانوں کے دروازے باہر کی طرف نکال لئے ہیں۔اب اردگرد کے رہائشیوں کیلئے پریشانی یہ ہے کہ دروازے انکے گھروں کے سامنے بن چکے ہیں جہاں ہر وقت خریداروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور پھر ریڑھی والوں کیلئے بھی اُدھر ادھر ٹھیلے لگانے اور کھڑے ہونے پر کوئی قدغن نہیں ہے یوں لگتا ہے کہ تجاوزات کے حوالے سے منشا بم کے یہاں سائے لہرا رہے ہیں۔
تحریک انصاف حکومت کا طرہ امتیاز تجاوزات کا خاتمہ اور قبضہ گروپوں کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے۔تجاوزات کیخلاف کئی بار آپریشن ہوئے۔ہرحکومت تجاوزات کے خلاف ایک نیا عزم اور ولالہ لے کے آغاز کرتی رہی مگر جلد ہی ایسے عزائم اور جوش و جذبات مصلحتوں کی تپش سے پگھلتے گئے اور تجاوزات پہلے سے زیادہ پھلنے پھولنے لگیں۔تحریک انصاف کی حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح بڑے جوش وخروش سے تجاوزات کیخلاف بڑے بڑے آپریشن کررہی ہے۔تاہم ماضی کے حوالے سے موازنہ کیا جائے تو دو فرق واضح نظر آتے ہیں۔ایک تو حکومت کسی مصلحت اور دبائو میں آتی نظر نہیں آرہی،دوسرے عدلیہ بھی تجاوزات اور قبضہ گروپوں کیخلاف سخت ایکشن لے رہی ہے،اس لئے تجاوزات اور قبضہ گروپوں کیخلاف کسی قسم کی رعایت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔حکومت اور متعلقہ محکمے تجاوزات کیخلاف سرکاری کالونیوں میں بلاتاخیر کارروائی کرکے رہاشیوں کی پریشانی دور کرنے کی کوشش کریں۔ مرکز کے ملازمین کی کالونیوں کے معاملات درست رکھنا وفاقی ہاؤسنگ و ورکس وزارت کی ذمہ داری ہے،گورنر وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے ایسے حالات کا جائزہ اور نوٹس لینے کے مجاز ہیں۔تحریک انصاف حکومت کرپشن اور احتساب کے حوالے سے کسی دبائو کو خاطر میں نہیں لارہی ،اس لئے یہ اپنے ایجنڈے اور پروگرام پر عمل میںکامیاب ہورہی ہے،حالانکہ اسے بڑی اور مضبوط اپوزیشن کی طرف سے سخت مخالفت اور مزاحمت کا سامنا ہے،مگر سرخرو کون ہوگا؟ یقینا وہی جس نے سچ اور صداقت کا علم اُٹھا رکھا ہے۔پاکستان کی معیشت مضبوط تر ہورہی ہے۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان کامیابیوں سے ہمکنار ہوا۔اس دورے کے دوران جو معاہدے ہوئے وہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے ضامن ہونگے۔سال نو پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے نہایت سعد ثابت ہوتا نظر آرہا ہے۔رواں سال ترقی اور خوشحالی کی مضبوط بنیادیں استوار ہونے کا یقین کی حد تک امکان ہے۔یہ سال جہاں پاکستان کیلئے خیرو برکت کا سال ثابت ہوگا وہیں ملک میں ہونیوالی بڑی بڑی تبدیلیاں بھی پاکستان کیلئے احسن ثابت ہونگی۔جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ پر ان کا بہترین متبادل جسٹس آصف سعید کھوسہ ثابت ہوئے، ان کو جسٹس گلزار اسی سال ری پلیس کرینگے،وہ بھی اپنی فیلڈ کے بہترین شاہسوار ہیں۔جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کا بھی یہی سال ہے، وہ ایک دن کی بھی توسیع کے روادار نہیں،ان کو اپنے جانشین کی صلاحیتوں اور مہارت پر کامل یقین ہے۔ایسی دیگر تبدیلیاں بھی پاکستان کے بہترین مفاد میں نظر آرہی ہیں۔ہر گزرتے دن کیساتھ حکومت کی مشکلات کم ہورہی ہیں اور حکومت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024