حکومت پنجاب آئندہ چند دنوں میں اپنی پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ بندی کا باقاعدہ اعلان کرنے جا رہی ہے جس کی تکمیل کا دعوی وزیر خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جواں بخت نے اپنی ابتدائی سو روزہ کارکردگی رپورٹ میں کیا تھا۔ یوں تو تب سے اب تک پنجاب نے گروتھ سٹریٹیجی کا باقاعدہ اعلان تو نہیں کیا گیا مگر اپنے اصلاحی اقدامات سے اسکے بنیادی خدوخال ضرور واضح کر دئیے ہیں ۔ آئندہ پانچ سال میںحکومت پنجاب کا مرکزی ایجنڈا سوشل سیکٹر ہو گا تاہم سوشل سیکٹر کے ریفارم کیلئے مستحق افراد کی مالی وظائف کے ذریعے مالی معاونت کا براہ راست مگر ناپائیدار طریقہ اختیار کرنے کی بجائے تعلیم صحت اور روزگار میں اضافے کا پائیدار طریقہ اختیار کیا جائیگا۔ اس طریقہ کار کو مزید موثر بنانے کیلئے پہلے سے موجود تعلیمی اداروں میں صبح شام کی کلاسز کے انعقاد کے ذریعے مختلف وجوہات کی بناء پر تعلیمی اداروں سے دوربچوں کو سکولوں اور کالجوں تک لایا جائیگا۔ بہت سی بچیاں صرف اس لیے بھی سکول نہیں جا پاتیں کے اُنھیں اپنے ملازم والدین کی عدم موجودگی میں گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنی پڑتی ہیں۔ شام کے اوقات میں کلاسوں کے انعقاد سے مائوں کی ملازمت سے وآپسی پر ایسی بچیوں کیلئے بھی سکول میں داخلے کے مواقع پیدا ہونگے۔ ارلی چائلڈ ہڈ سکول دوہرے نظام تعلیم میں عدم مطابقت پر کنٹرول کا سبب بنے گا۔ نجی سکولوں پر چیک اینڈ بیلنس کی پالیسی تدریسی نظام میں توازن پیدا کریگی۔ نصاب کی دور حاظر کے تقاضوں سے ہم آہنگی اور اساتذہ کی میرٹ پر بھرتیاں پبلک سکولوں پر والدین کے اعتماد کی بحالی میں اہم کردار ادا کریگی۔ صاف پانی اور صحت کارڈ اگرچہ پچھلی حکومت کی پلاننگ کا بھی حصہ رہے اور تب بھی ان سے ایسی ہی توقعات وابستہ کی گئیں مگراس بار انکے اطلاق کاطریقہ کار پہلے سے قدرے مختلف ہے ۔ انصاف کارڈ کی پہلی لانچ اور صاف پانی کمپنیوں سے کرپشن کے خاتمے نے تبدیلی کے امکانات کو کافی حد تک قوی بنا دیا ہے کیونکہ ا س بار انصاف صحت کارڈ کی تقسیم سے قبل انشورنس کمپنیوں کو پریمیم کی رقم ادا کی جا چکی ہے ۔ منصوبے کا آغاز خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنیوالے اس طبقہ سے کیا جا رہا ہے جہاں جسمانی بیماریاں بتدریج معاشرتی بیماریوں کا سبب بنتی ہیں اور فاقے اس وقت جرائم میں تبدیل ہو جاتے ہیں جب چھوٹی چھوٹی بیماریاں سروں کے سائے چھین لیتی ہیں ۔ زچگی کی ضروریات کے علاوہ حادثاتی موت کی صورت میں مستحق افراد کیلئے ایمبولینس اور تجہیزو تدفین کے اخراجات کی تخصیص بھی انصاف کارڈ پر دی جانیوالی اضافی سہولیات میں شامل ہیں جو نئی حکومت کی غریب طبقہ کے مسائل آگاہی کا ثبوت ہے۔ اس بار حکومت صاف پانی کمپنیوں کو شتربے مہار چھوڑنے کی بجائے انکی سرپرستی خود اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے تاکہ منصوبہ صرف کاغذی کاروائی تک محدود نہ رہے ۔پاکستان کے GDPکا 21فیصد جبکہ زر مبادلہ کا 80فیصد زراعت اور زرعی مصنوعات کی برآمدات پر مشتمل ہ اور سب میں پنجاب کا70فیصد حصہ ہے ۔اس اعتبار سے زراعت کا شعبہ ہر دور میں ہی اہمیت کا حامل رہا ہے لیکن اسکے باوجوپیداوار میں کمی اور غذائی قلت کے مسائل میں اضافہ ہوا کبھی عالمی سطح پر قیمتوں کی شرح میں نامناسب کمی پیشی تو کبھی موسمی تغیرات زرعی معیشت کو متاثر کرتے رہے۔ مقامی سطح پر ذخیرہ اندوزی کے غیر موزوں طریقے، کسانوں کی منڈیوں تک رسائی ، لاگت میں اضافہ ،آڑھتیوں کی بدعنوانیاں، توانائی کا بحران اور آبپاشی کے مسائل کے علاوہ حکومتی پالیسیاں بھی زرعی شعبہ میں بحران کا سبب بنے ۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے زرعی شعبہ کی اہمیت اور مسائل کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے اپنی حکومت کے ابتدائی سو دن میں زرعی شعبہ کی اصلاح کا بیڑہ اٹھاتے ہوئے 20 ورکنگ گروپ تشکیل دئیے جنھیں فصلوں کی فی ایکڑپیداوا ر،زرعی برآمدات میں اضافہ، تیلدار اجناس کے زیر کاشت رقبہ اور پیداوار میں اضافہ کیلئے جامع منصوبہ بندی کا ٹاسک دیا گیا بلکہ اسی دورانیہ میں کابینہ سے اسکی منظوری بھی لے لی گئی تک کہ جتنی جلدی ممکن ہو اس پر عملدرآمد کروایا جا سکے ۔ پالیسی کے تحت حکومت رزعی شعبہ میں سرمایہ کاری کو فروغ دے گی، انتظامی اُمور میں بہتری کیلئے ڈیجیٹل میکانزم کو فروغ دیا جائیگا اور اس مقصد کیلئے پرائیویٹ سیکٹر کی شمولیت کو یقینی بنایا جائیگا۔ زرعی اجناس کے معیار میں بہتری کے ذریعے عالمی منڈیوں میں مقامی پیداوار کی ڈیمانڈ بڑھائی جائیگی اور تجارت کیلئے سی پیک سے بھرپوراستفادہ کیا جائیگا۔ مقامی سطح پر سرمایہ کاروں کو خصوصی مراعات کے ذریعے سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائیگی۔ زرعی شعبہ میں لیبر کی کمی کو پورا کرنے کیلئے دیہی خواتین اور نوجوانوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جائیگا۔ صنعتی پالیسی میں اصلاح سے سرمایہ کاری میں اضافے کے وسیع تر مواقعے پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ نئی پالیسی کے تحت مقامی و بین الاقوامی سرمایہ کاروں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔ اس وقت پاکستان کا شمار دنیا کہ ان چند ممالک خوش قسمت ترین ممالک میں کیا جا رہا ہے جو کام کرنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد کی بناء پر معاشی ترقی کے مزید مواقع میسر ہیں کیونکہ اس وقت پاکستان کی آبادی کا نصف سے زائد 30سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جو 2050تک لیبر فورس کا حصہ رہے گی ۔ تاہم یہ خوش صرف اس وقت مفید ثابت ہو سکتی ہے جب اس فورس کی تیاری مقامی اور عالمی منڈیوں کی طلب کیمطابق کی جائے اور اسے کام کرنے کے مواقع میسر ہوں۔ اس مقصد کیلئے وفاقی و صوبائی سطح پر کوششوں کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔
نئے پنجاب کی نئی ترقیاتی منصوبہ بندی
Feb 19, 2019