نوجوان نسل ’’ شیشہ ‘‘ کے دھواں میں غرق !
تحریر و ترتیب: احمد کمال نظامی
بیوروچیف نوائے وقت فیصل آباد
برے مستقبل سے بچانے کے لئے منشیات پر قابو پانے کی ضرورت ہے
عوامی، سیاسی، سماجی، اخلاقی، ثقافتی اور تہذیبی مسائل کے حوالہ سے بات کی جائے تو سب سے اہم مسئلہ کون سا ہے جو پوری قوم اور مستقبل کے حوالہ سے بنیادی نوعیت کا ہے اور اس نے پوری قوم کے مستقبل کو داـؤ پر لگایا ہے اور یہ مسئلہ کسی بھی صورت حل ہوتا نظر نہیں آتا، بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کو بین الاقوامی مسئلہ قرار دیا جاتا ہے اور تمام ممالک دہشت گردی کے خاتمہ پر یکجا اور یک زبان ہونے کیساتھ یک عمل بھی نظر آتے ہیں لیکن یہ مسئلہ پیدا کیا ہوا اور اس کے مقاصد سے کون فوائد اٹھا رہا ہے اور اس کا سرچشمہ کون ہے، اس باے میں ہر طرف خاموشی پائی جاتی ہے۔ جب تک منشیات کا سرچشمہ بند نہیں کیا جاتا، اس مسئلہ پر قابو پانا ناممکن ہے کیونکہ اس کی اشکال اس قدر ہیں جیسے ہندوؤں کے ایک بھگوان کے دو کی بجائے چار ہاتھ ہوتے ہیں اور اس نے اپنے سر پر شیش ناگ کا تاج پہنا ہوتا ہے۔ داعش ہو یا کوئی اور دہشت گرد تنظیم اور گروہ اس کا سرغنہ امریکہ ہے۔ ان تنظیموں نے خصوصی طور پر مسلم ممالک اس کا ٹارگٹ ہے اس میںپاکستان سرفہرست ہے۔ دہشت گردی نے تو زیادہ سے زیادہ بیس پچیس برس قبل جنم لیا اور اس کے سیاسی مقاصد ہیں لیکن دہشت گردی سے بدرجہ اتم بڑا مسئلہ منشیات کا فروغ اور منشیات کی سپلائی ہے۔ اگر سچ جانیے تو دہشت گردی کے فروغ اور پھیلاؤ کے پس پردہ منشیات ہی کارفرما ہے کیونکہ منشیات سے جو آمدن ہوتی ہے دہشت گردوں کو اسی آمدن سے اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر جس قدر بھی مافیاز اپنے اپنے کام میں مصروف عمل ہیں ان میں سب سے بڑا اور طاقتور مافیا منشیات فروشوں کا ہے اور اصل سپرپاور منشیات فروش مافیا ہے جو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے حکومتوں کا دھڑن تختہ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ ایک زمانہ میں امریکہ نے ہیروئن کے خلاف بین الاقوامی سطح پر بڑی بھرپور مہم کا آغاز کیا اور اس کا نزلہ بھی پاکستان پر گرا حالانکہ ہیروئن نامی نشہ کا موجد امریکہ بہادر تھا۔ ہیروئن نے جو تباہی اور بربادی پھیلاـئی اور خاندانوں کے خاندان تباہ کر دیئے اس سے انکار کی کوئی گنجاـئش نہیں ہے جبکہ منشیات کے حوالہ سے مغرب اور مشرق کے فلسفہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ہم شراب کو حرام قرار دیتے ہیں مغرب میں شراب حرام نہیں بلکہ اس کی مختلف برانڈ کی تشہیر کی جاتی ہے اور پھر شراب کے علاوہ جس قدر بھی نشہ آور اشیاء اس وقت مارکیٹ میں دستیاب ہیں وہ تمام کی تمام مغرب کی ایجاد ہیں۔ ان میں حالیہ ایجاد جسے شیشہ کا نام دیا جاتا ہے وہ بھی مغرب کا ’’تحفہ‘‘ ہے اور بڑے بڑے پوش علاقوں میں جو عالیشان ہوٹلوں میں شیشہ کی دعوت کی محفلیں جمائی جاتیں اور نوجوان نسل شیشہ کے دھواں میں غرق ہوتی۔ فیصل آباد سٹیزن کونسل کے صدر میاں طاہر ایوب نے اپنے بیان میں فیصل آباد پولیس کے آر پی او بلال صدیق کمیانہ اور سی پی او اطہر اسماعیل امجد کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ فیصل آباد میں عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات اور ہدایات کے باوجود فیصل آباد کے بعض پوش علاقوں میں شیشہ کیفے قائم ہیں اور اس شیشہ کیفوںمیں نوجوان نسل پوری آزادی کے ساتھ شیشہ پیتے ہیں اور ان کے خلاف حکومتی مشینری کی کوئی انسدادی حرکت نظر نہیں آتی۔ اس کے ساتھ ہی میاں طاہر ایوب کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیصل آباد میں ایسے انٹرنیٹ کلب بھی قائم ہیں اور ان انٹرنیٹ کلبوں میں اخلاق باختہ سی ڈیز، ڈی وی ڈی فروخت ہو رہی ہیں ان کی فروخت سے نوجوان نسل تباہی کی غار میں تیزی سے گر رہی ہے اور شیشہ کیفے منشیات کے فروغ کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ نوجوان نسل جس تیزی کے ساتھ اخلاقی گراوٹ اور بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے اس کا فوری طور پر ازالہ کرنے اور اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں چین کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ چین ایک افیم نوش قوم ہے اور افیون چینیوں کی گٹی میں شامل تھی لیکن اسی چینی قوم میں ایک لیڈر موزے تنگ پیدا ہوا اور اس نے اپنی قوم کو نہ صرف اس نشہ سے نجات دلائی بلکہ ایک انقلابی قوم بنا دیا اور آج وہی چینی قوم سپرپاور کے طورپر ابھر رہی ہے اور جلد ہی امریکہ کے مقابلہ میں دوسری سپرپاور قرار دی جائے گی جبکہ ہماری حالت چین کی افیم نوشی سے بھی اس وقت بدتر نظر آتی ہے اور ہماری تباہی، بربادی، اخلاقی، سماجی، تہذیبی گراوٹ میں افیون سے بھی زیادہ خطرناک بلکہ زہرہلاہل کا کام انٹرنیٹ بنا ہوا ہے اور انٹرنیٹ پر جو سی ڈیز دکھائی جا رہی ہیں اور فروخت ہو رہی ہیں، قصور کی معصوم زینب کے حوالہ سے تحریر کر چکا ہوں کہ ان معصوم کلیوں سے جنسی تشدد پر مبنی فلمیں پوری دنیا خصوصی طور پر مغرب میں ایک منافع بخش تجارت کا درجہ رکھتی ہیں اور یہ مافیا بھی منشیات مافیا سے کسی طور کم طاقتور نہیں ہے اور اس مافیا میں جو لوگ شامل ہیں بلکہ کل پرزے ہیں ان پر کوئی ہاتھ ڈالنے والا نظر نہیں آتا۔ انٹرنیٹ کی موجودہ زمانہ میں افادیت سے انکار نہیں ہے لیکن پاکستان کی نـئی نسل نے اسے افیون کا نعم البدل قرار دے کر اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو سانپوں کے بل میں داخل کر دیا ہے۔ اس زہر سے نشہ حاصل کر رہی ہے خدارا اس زہر کا تریاق دریافت کریں ورنہ ہمارے مستقبل کی وارث اس نشہ میں تباہ و برباد ہو جائے گی۔ ایک نوجوان ایک گھرانے کا ہی نہیں پوری قوم کا مستقبل ہوتا ہے اور نوجوان نسل ایک ایسی نرسری ہوتی ہے کہ اس نرسری سے فصلیں جنم لیتی ہیں اگر انٹرنیٹ جو ایک نشہ کی شکل میں ہماری نـئی نسل کو اپنی گرفت میں لے چکی ہے یہ دیمک اپنی نسل کو تباہ کر رہی ہے جسے نشہ کی علت نوجوان نسل کو تباہ کرتی ہے اور اب تو حالت یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں آن لائن منشیات کی سپلائی ہو رہی ہے۔ اگر نگاہ حقیقت سے دیکھا جائے تو نشہ کوئی بھی ہو چاہے وہ فیشن کے طور پر شیشے کا نشہ ہی کیوں نہ ہو، بے شمار گھر محض ایک فرد کے منشیات کا عادی ہو جانے سے تباہی و بربادی کے ایسے غار میں گرے کہ اس دلدل میں ہی غرق ہو گئے۔ اس کی ذمہ داری کس پر عاـئد ہوتی ہے۔ خاندان ہی نہیں حکومت ہی نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری پوری قوم ہے بلکہ زیادہ ذمہ داری ان کی ہے جو محراب و منبر کے خود کو وارث قرار دیتے ہیں۔ وزارت انسداد منشیات کے لئے یہ بات کسی چیلنج سے کم نہیں اور انتہاـئی تشویشناک ہے کہ منشیات کے عادی افراد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور اس وقت ایک کروڑ سے زیادہ تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں نـئی نسل کی تعداد پچاس فیصد سے زیادہ ہے اور طبی زاویہ نگاہ سے اس وقت جن موذی امراض جن میں کینسر کی مختلف اشکال بھی شامل ہیں ان موذی امراض کا سرچشمہ ہی منشیات ہے جو بدقسمتی سے ادویات کے نام پر بھی فروخت ہو رہی ہیں۔ سیکنڈری سے لے کر انٹرنیٹ تک نوجوان نسل کے لئے انتہائی حساس دور ہوتا ہے بدقسمتی اور قومی المیہ یہ ہے کہ یہی حساس دور نشہ اور انٹرنیٹ نشہ کی بھینٹ چڑھتا ہوا نظر آتا ہے اور منشیات مافیا اس قدر منظم اور متحرک ہے کہ اس پر قانون نافـذ کرنے والے ادارے کوئی آہنی ہاتھ ڈالنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ وزارت انسداد منشیات کا یہ دعویٰ کہ سکولوں اور کالجوں میں منشیات کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی مہم تیز کر دی گئی ہے اس سے بڑا سفید جھوٹ کوئی اور نہیں ہو سکتا اگر مہم تیز کر دی گئی ہے تو منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ کیسے ہوا جو 67لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ کو چھوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ لہٰذا ہمیں دہشت گردی کے مسئلہ کے ساتھ ساتھ اس مسئلے سے نمٹنے کی ضرورت ہے جو ہمارے مستقبل کو چاٹتا نظر آ رہا ہے۔