ایوب زرعی ترقیاتی ادارہ میں ڈے کیئر سینٹر کا قیام
ملازم خواتین کیلئے ایسے ادارے باعث اطمینان ، شہباز شریف فلاحی ریاست کیلئے سرگرم
ماضی بھی ایک طلسم ہوشربا ہوتا ہے اور ماضی انسان اور معاشرہ کا ایک ایسا لازمی جزو ہوتا ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود اس سے نجات حاصل کرنا ممکن نہیں۔ چونکہ ہم مشرقی معاشرہ کا خود کو ایک فرد قرار دیتے ہیں اور خواتین کے حوالہ سے ہماری تہذیب و ثقافت کے بعض ایسے پہلو ہیں جو موجودہ دور میں قصہ پارینہ کا درجہ اختیار کرتے ہیں ان میں ایک خاندان کا مشترکہ طور پر ایک ہی گھر میں رہنا بھی شامل ہے اور بچے سب کی مشترکہ میراث قرار دیئے جاتے تھے اور خواتین کا چاہے وہ امیر ہوں، غریب ہوں، درمیانہ طبقہ سے تعلق رکھتی ہوں ان کا ملازمت کرنا ایک طعنہ کا درجہ رکھتا تھا لہٰذا خواتین تنگی برداشت کر لیتی تھیں لیکن ملازمت نہیں کرتی تھیں۔ پھر تعلیم کے حوالہ سے خواتین اس میدان میں بہت پیچھے تھیں کہ عام تصور یہی تھا کہ ہم نے ان سے کون سی ملازمت کرانی ہے لیکن آہستہ آہستہ اس رجحان اور سوچ میں تبدیلی ہوئی اور اس تبدیلی نے ارتقائی منازل اس تیزی سے طے کئے کہ آج اگر کہیں رشتہ کی بات ہوتی ہے تو پہلا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ لڑکی کی تعلیم کتنی ہے اور تعلیمی میدان میں لڑکیوں نے لڑکوںکو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ زندگی کا کون سا ایسا شعبہ ہے جس میں لڑکیاں کام کرتی نظر نہیں آتیں۔ مشکل سے مشکل شعبہ ہائے زندگی میں لڑکیاں اپنی خدمات سرانجام دیتی نظر آتی ہیں حتیٰ کہ سائنس، ٹیکنالوجی، اقتصادیات، معاشیات، زراعت اور عسکری اداروں میں بھی لڑکیاں نمایاں عہدوں پر فائز ہیں۔ کہاں سائیکل چلانا لڑکی کے لئے شجرممنوعہ کا درجہ رکھتا تھا اورآج لڑکیاں پائلٹ کے فرائض سرانجام دی رہی ہیں گو ہمارے سامنے ایسے اعدادوشمار تو نہیں ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکے کہ 21کروڑ کی آبادی میں کتنی خواتین مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں اور ماضی کے مقابلہ میں طالبات کے تعلیمی اداروں کی تعداد سوگنا زیادہ ہے۔ ایک زمانہ میں ہماری یہ روایت تھی کہ ماں سے زیادہ بچے دادی، پھوپھی اور ماسی کی گود میں ہوتے تھے اور اگر کوئی ماں کسی ادارہ میں ملازمت کرتی ہے تو بچے کی تمام تر ذمہ داری اس کی پھوپھی اور دادی کے سپرد ہی ہوتی تھی لیکن ایک تبدیلی اور آئی کہ گھر کے اخراجات چلانے کے لئے گھر کے ہر فرد کو اپنی صلاحیت کے مطابق کسی نہ کسی ادارہ میں ملازمت اختیار کرنا پڑی تو ضرورت محسوس ہوئی کہ بچوں یعنی چھوٹے بچوں کی نگہداشت کون کرے گا۔ اس تصور کے جنم لیتے ہی ڈے کیئر سینٹر کا قیام ایک عملی شکل میں سامنے آیا۔ دراصل ڈے کیئر سینٹر کا قیام بھی اولڈ ایج ہاؤس سے ہی لیا گیا۔ اس میں بنیادی فرق وقت کا ہے اور ڈے کیئر سینٹر وقت کی ایک ناگزیر ضرورت اور تقاضا وقت کا درجہ اختیار کر چکے ہیں اور حکومت وقت بھی اس پہلو کو اہمیت دیتے ہوئے اپنے بجٹ میں اسے بھی شامل کرتی ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوںنے اپنے دوسرے عہد اقتدار میں پنجاب کے مختلف بڑے شہروں میں ڈے کیئر سینٹر کے قیام پر خصوصی توجہ دی اور ان کی کوشش ہے کہ پنجاب کے بڑے شہروں جن میں فیصل آباد بھی شامل ہے زیادہ سے زیادہ ڈے کیئر سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے۔ فیصل آباد میں گزشتہ روز ایوب زرعی ترقیاتی ادارہ میں صوبائی وزیر برائے ترقی خواتین حمیدہ وحیدالدین نے ایک ڈے کیـئر سینٹر کا افتتاح کیا اور اس افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حمیدہ وحیدالدین نے بتایا کہ پنجاب میں ڈے کیـئر سینٹر کے قیام کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب میاںمحمد شہبازشریف کے وژن کو عملی شکل دیتے ہوئے ایوب زرعی ترقیاتی ادارہ میں جو ڈے کیئر سینٹر قائم کیا جا رہا ہے اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ملازم پیشہ خواتین چاہے وہ کسی بھی شعبہ میں ملازمت کر رہی ہوں خواتین کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے اور ان کا دھیان اپنے معصوم بچوں کی طرف ہوتا ہے۔ لہٰذا اس ڈے کیئر سینٹر کے قیام سے وہ بے فکرہو کر اپنے منصبی فرائض سرانجام دے سکیں گی کیونکہ اس نئے ڈے کیئر سینٹر میں بچوں کی مناسب اور بہتر نگہداشت کا اہتمام کیا گیا ایور نگران عملہ بچوں کو وہی ہاتھ فراہم کرتا ہے جو ماں کے ہاتھ ہوتے ہیں اور بچوں کو دن بھر احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ ماں سے دور رہے ہیں۔ حمیدہ وحیدالدین نے اپنی تقریر میں کہا کہ بیس کروڑ روپے ڈے کیئر سینٹر کے قیام کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ پنجاب میں اس وقت 102ڈے کیئر سینٹر کام کر رہے ہیں جن میں چار تو فیصل آباد ہیں اور ان پانچوں کا افتتاح صوبائی وزیر برائے ترقی خواتین حمیدہ وحیدالدین نے کیا ہے۔ ایوب زرعی ترقیاتی ادارہ میں جو ڈے کیئر سینٹر قائم کیا گیا ہے اس پر بائیس لاکھ ساٹھ ہزار روپے کے اخراجات آئیں گے اور اس کے قیام سے ملازم پیشہ خواتین اپنے بچوں کی ڈیوٹی کے اوقات میں بے فکر رہیں گی اور خوش اسلوبی سے اپنے فرائض سرانجام دیتی رہیں گی۔ ڈے کیئر سینٹر کا قیام فلاحی ریاست کے تصور کو جنم دیتا ہے ایسے ہی اقدامات سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کون سے اقدامات اٹھا رہیہے اس وقت ماضی کے مقابلہ میں خواتین زیادہ تعلیم یافتہ ہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے افعال و کردار سے ثابت کر دیا ہے کہ گاڑی کا وہ دوسرا پہیہ ہے جس کے بغیر گاڑی نامکمل کہی جا سکتی ہے اور نہ چل سکتی ہے گویا ڈے کیـئر سینٹر کا قیام اس نکتہ نگاہ سے بڑا یگانہ اور یکتا ہے کہ ماں کو بچوں کی نگہداشت کی فکر سیمکمل بے فکری ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کی ملازم خواتین جو مختلف تحقیقاتی شعبوں میں بھی کام کر رہی ہیں اور بعض تو زراعت کے حوالہ سے اہم ریسرچ بھی کر رہی ہیں اور معصوم بچوں کی مائیں بھی ہیں اب ان کے بچوں کی نگہداشت کے لئے اپنے ہی ادارہ میں ڈے کیئر سینٹر کی سہولت حاصل ہو گئی ہے۔ وہ ڈیوی سے فارغہوتے ہی اس سینٹر کا رخ کریں گی اور جب گھر میں داخل ہوں گی تو بچے ان کی گود میں مسکرا رہے ہوں گے۔ یہ ایک واقعی احسن اور فلاحی اقدام کے ساتھ خدمت اطفال کا مرکز ہے جو وقت کا تقاضا اور ناگزیر ضرورت بھی تھی اسے پوراکردیا گیا ہے۔