واشنگٹن اور کابل حکام پاکستان سے معاندانہ رویہ اختیار کر کے افغان جنگ کبھی نہیں جیت سکتے
آرمی چیف کی افغانستان سے پاکستان پر حملے ہونے کی نشاندہی اور امریکی جرنیل کا پاکستان سے تعاون جاری رکھنے کا عندیہ
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار بے مثال ہے، افغانستان میں امن و استحکام کے لئے تعاون کرنے کو تیار ہیں، ہم نے دہشت گرد تنظیموں کو شکست دی۔ پاکستان میں دہشت گردوں کا کوئی منظم کیمپ نہیں، گزشتہ روز میونخ میں عالمی سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے افغانستان میں ہیں، افغانستان سے پاکستان میں حملے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتہا پسندی کو جہاد نہیں کہنا چاہئے۔ پاکستان اور افغانستان خودمختار ملک ہیں، دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تمام ممالک کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے، افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی پر پاکستان کو تشویش ہے جبکہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گردی کی جنگ میں صرف ملٹری آپریشن نہیں کر رہے بلکہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام بھی شروع کر رکھا ہے۔ ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے کوئی ٹھکانے نہیں۔ انہوں نے باور کرایا کہ پاکستان نے انتہا پسندی کے خلاف خونیں جنگ لڑی ہے، ہم وہ کاٹ رہے ہیں جو 40 سال قبل بویا گیا، اب وقت آ گیا ہے کہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جائے۔ انہوں نے کہا کہ الزام کی بجائے امریکہ اور نیٹو افغانستان میں اپنی ناکامی کی وجوہات تلاش کریں، ہم نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی ہے اور پوری قوم کی مشترکہ کوششوں سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے۔ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل کر رہے ہیں جس کے تحت ہم نے القاعدہ، طالبان اور جماعت الاحرار کو شکست دی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ آج امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک کی جانب سے جن انتہا پسند تنظیموں کی دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالا جاتا ہے یہ امریکہ کی اپنی ساختہ تنظیمیں ہیں جنہیں اپنے مقاصد کے تحت استعمال کیا جاتا رہا اور جب انہی تنظیموں کے بندوق، کلاشنکوف اٹھانے اور گولہ بارود اپنے جسموں پر باندھ کر خودکش بمبار بننے والے لوگ امریکی سلامتی کیلئے خطرہ بنے تو اپنی ہی پیدا کی گئی ان قباحتوں کو پاکستان اور دوسری مسلم دنیا کے ساتھ نتھی کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ سابق سوویت یونین کے خلاف 40 سال قبل افغان سرزمین پر شروع کی گئی سرد جنگ میں امریکہ نے افغان مجاہدین کی سرپرستی کی اور انہیں اسلحہ، گولہ بارود اور دولت سے مالامال کر کے سوویت یونین کے آگے جھونک دیا۔ اس جنگ میں بھی امریکہ نے پاکستان کے اس وقت کے جرنیلی آمر ضیاء الحق سے فرنٹ لائن اتحادی کا کام لیا جنہوں نے نہ صرف امریکی ایما پر افغان مجاہدین کو تربیت اور کمک فراہم کی بلکہ سوویت فوجوں کی یلغار پر ہجرت کرنے والے لاکھوں افغان شہریوں کو بھی پاکستان میں پناہ فراہم کی۔ 40 لاکھ کے قریب یہ افغان باشندے جن میں افغان مجاہدین اور ان کے خاندانوں کے ارکان بھی شامل تھے صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں کے علاوہ نوشہرہ اور اسلام آباد کے قرب و جوار میں بھی پناہ گزین کی حیثیت سے آباد ہو گئے۔ ان کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر جتنا بوجھ پڑا، امریکہ کی جانب سے دی جانے والی گرانٹ اس کا عشر عشیر نہیں تھی۔ یہی افغان مہاجرین جو امریکہ کے پیدا کردہ کلاشنکوف کلچر میں رچ بس چکے تھے، اس ارض وطن پر متعدد سماجی برائیاں پیدا کرنے کا بھی باعث بنے۔ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ افغان مجاہدین کی مدد و معاونت سے جب امریکہ نے سرد جنگ میں کامیابی حاصل کر لی جس کے نتیجہ میں سوویت یونین گورباچوف کی گلاسنوسٹ پالیسی کی بھینٹ چڑھ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تو امریکہ نے افغان مجاہدین کی سرپرستی برقرار رکھنے کے بجائے انہیں کھلا چھوڑ دیا اور واشنگٹن انتظامیہ ان کے معاملات سے بے نیاز ہو گئی۔ چنانچہ افغان مہاجرین نے جنہیں اسلحہ کے آزادانہ استعمال کی لت پڑ چکی تھی اور وہ دولت میں کھیل رہے تھے، اپنی بقاء کیلئے لوٹ مار اور دہشت گردی کا راستہ اختیار کر لیا۔ انہی افغان مجاہدین نے افغان طالبان کا روپ اختیار کیا تو یہ پھر امریکہ کے نیلی آنکھوں والے بچے بن گئے جبکہ افغانستان میں طالبان حکومت کو بھی سب سے پہلے امریکہ نے ہی تسلیم کیا۔ اسی طرح تاریخ کا ریکارڈ اس امر کا بھی شاہد و گواہ ہے کہ عرب صنعتکار گھرانے کے انتہا پسندی کا راستہ اختیار کرنے والے فرزند اسامہ بن لادن کی بھی امریکہ نے ہی سرپرستی کی جس کی القاعدہ تنظیم افغانستان میں ٹھکانے بنا کر امریکی سرپرستی میں ہی آزادانہ طور پر تخریبی کارروائیاں کرتی رہی تاہم جب امریکی نائین الیون کے واقعہ میں امریکہ کو القاعدہ کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تو واشنگٹن اور پنٹاگون نے دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر نیٹو فورسز کے ذریعے افغان جنگ چھیڑ کر کہساروں کی اس دھرتی کو تورابورا بنا دیا۔ اس جنگ کے دوران بھی ہجرت کرنے والے افغان باشندوں نے پاکستان میں ہی پناہ حاصل کی چنانچہ گزشتہ 40 سال سے یہ افغان مہاجرین پاکستان کی معیشت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں جبکہ ان مہاجر کیمپوں میں موجود انتہا پسندوں نے ہی دہشت گردوں اور خودکش حملہ آوروں کا روپ اختیار کیا جنہوں نے افغانستان میں نیٹو اور افغان فورسز کے ساتھ جو کیا سو کیا، پاکستان کو بھی دہشت گردی اور خودکش حملوں کی بھینٹ چڑھا کر اس کی معیشت تباہ کر دی اور اسے سرمایہ کاری کے لئے قطعی غیر محفوظ بنا دیا۔ یقیناً امریکہ کی افغان پالیسی ہی پاکستان کے 70 ہزار سے زائد بے گناہ شہریوں کی جانیں لینے اور اس کی معیشت تباہ کرنے کا باعث بنی ہے۔ اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان سے ڈومور کے تقاضوں کی انتہا کئے رکھی ہے اور خود بھی پاکستان میں ڈرون حملوں اور دوسرے فضائی و زمینی آپریشنز کے ذریعے پاکستان کی خودمختاری کو چیلنج کرتا اور اس کی دھرتی کو اجاڑتا رہا ہے۔ اسی پس منظر میں اوبامہ کے پہلے دور حکومت میں بطور امریکی سیکرٹری آف دی سٹیٹ ہلیری کلنٹن نے اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ افغان مجاہدین کو سرد جنگ میں استعمال کرنے کے بعد ان کے سر سے ہاتھ کھینچ لینا امریکہ کی سب سے بڑی غلطی تھی کیونکہ اس پالیسی کے باعث ہی افغان مجاہدین دہشت گرد بن کر امریکہ ہی نہیں پوری دنیا کے امن و سلامتی کے لئے خطرہ بنے ہیں۔
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ اس غلطی کے ادراک کے باوجود واشنگٹن انتظامیہ نے افغان جنگ میں اپنے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کو دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے حوالے سے مورد الزام ٹھہرانا اور اس سے ڈومور کے تقاضے شروع کر دیئے جو پاکستان کو اس کے ناکردہ گناہوں کی سزا دینے کے مترادف ہے۔ اس کے باوجود پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں جانفشانی کے ساتھ بے لاگ کردار ادا کیا اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز مختلف مراحل میں اپنے آپریشنز کے ذریعے اس سرزمین کو دہشت گردوں کے لئے تنگ کرتی رہیں جس کے ردعمل میں پاکستان کو اپنے ہزاروں شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے ارکان کی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا اور اس کی معیشت تباہی کے دہانے تک جا پہنچی۔ پاکستان کے لئے یہ مایوس کن صورتحال ہے کہ جس افغان سرزمین پر امن کی بحالی کے لئے پاکستان نے فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے بھاری نقصانات اٹھائے ہیں۔ اس سرزمین کو ہی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ افغان جنگ میں پاکستان کے کردار پر اعتبار نہ کرنے کی امریکی پالیسی کے باعث اس کے ازلی مکار دشمن بھارت کو بھی افغان سرزمین اس کی سلامتی کے خلاف استعمال کرنے کا موقع ملا جہاں وہ ’را‘ کے ایجنٹ اپنے دہشت گردوں کو تربیت اور گولہ بارود دے کر افغان سرحد سے پاکستان میں داخل کرتا رہا جبکہ کابل انتظامیہ بھی افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے میں اپنی ناکامی کا غصہ پاکستان پر نکالتی رہی۔ اب افغانستان میں امن کی بحالی کے نام پر ہونے والے ٹرمپ، مودی گٹھ جوڑ نے پاکستان کی سلامتی کے لئے اور بھی کٹھن صورتحال پیدا کر دی ہے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اسے اقوام عالم میں تنہا کرنے، اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے اور اس کا نام دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک کی واچ لسٹ میں شامل کرنے کے درپے ہے جس پر ہمارے دشمن بھارت کا دل بلیوں اچھل رہا ہے جبکہ بھارتی آشیرباد سے کابل حکومت بھی نتھنے پھلا کر پاکستان کی جانب غراتی نظر آتی ہے۔ افغانستان میں قیام امن کی امریکی پالیسی کی اس سے بڑی بے تدبیری اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ افغان امن عمل کے لئے موثر کردار ادا کرنے والے پاکستان کے ساتھ ہی دشمنی پر اتر آئی ہے جبکہ بھارت کو علاقے کا تھانیدار بنا کر خطے کو بدامنی کی آگ میں مزید جھونکنے کا بھی اہتمام کر لیا گیا ہے۔
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر امریکہ کے لئے افغان جنگ جیتنا ناممکن ہے اور اس جنگ میں پاکستان کے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار سے رجوع کرنے کی صورت میں افغان سرزمین امریکی افواج کے قبرستان میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس حقیقت کا واشنگٹن اور پینٹاگون کے موثر حلقوں کو یقیناً ادراک بھی ہے اور اسی تناظر میں امریکی فضائیہ کے لیفٹینٹ جنرل جیفری ہریجن نے گزشتہ روز قطر میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور امریکہ کا قریبی تعاون جاری ہے، اسلام آباد ہمارا اتحادی ہے اور ہم باہم مل کر کام کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ افغان جنگ میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کر کے اس کے بارے میں طے کی گئی اپنی سخت گیر عاجلانہ پالیسیوں سے رجوع کرلے۔ اس کی روکی گئی فوجی معاونت بحال کر دی جائے اور اس کے ساتھ طے پانے والے انٹیلی جنس شیئرنگ کے معاہدے کو روبہ عمل لا کر افغان سرزمین پر امریکی اور افغان فورسز خود کارروائی کریں اور پاکستان میں اس کی سکیورٹی فورسز امریکہ کی فراہم کردہ معلومات پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر آپریشن کریں تو اس پورے علاقے کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ اس تناظر میں آرمی چیف نے میونخ کانفرنس میں بجا طور پر باور کرایا ہے کہ ہم آج چالیس سال قبل کی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں۔ ہمیں یہاں افغان مہاجرین کی شکل میں موجود اس فصل کی کھاد کو بھی اس کے ملک واپس بھجوانا ہے، ہماری سکیورٹی فورسز نے اس ارض وطن کو دہشت گردوں کا قبرستان بنایا ہے تو اب افغانستان کو بھی اپنی سرزمین پر یہ کردار ادا کرنا ہو گا بصورت دیگر دہشت گردی کے مستقل خاتمہ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔