پیر ‘ 1439 ھ2جمادی الثانی ‘ 19؍ فروری 2018ء
حکومت سندھ فٹ پاتھ سکول کو نہ چھیڑے: چیف جسٹس
کراچی کے پوش ایریا کلفٹن میں ایک خاتون نے اردگرد کی کم وسیلہ غریب آبادیوں کے بچوں کو پڑھانے کی ٹھان لی۔ سکول بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اس لئے اس باہمت خاتون نے فٹ پاتھ پر سکول بنا لیا۔ فلائی اوور کے نیچے سائے میں بچوں کے بیٹھنے کا بندوبست کیا اور پھر ’’چل مرے خامے بسم اللہ‘‘ والا معاملہ بن گیا۔ یہ سکول دیکھتے ہی دیکھتے چل پڑا جس سے ارد گرد قائم نجی اور سرکاری سکولوں کو ’’وخت ‘‘ پڑ گیا اور وہ اس کے خلاف ہو گئے۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف مال دار این جی اوز کو اس وقت ہونے لگی جب عالمی ڈونر ایجنسیوں کی نظر اس سکول کی طرف پڑی۔ انہوں نے بھی اس کی ستائش کی اور اس کی مدد پر غور کرنا شروع کر دیا۔ بس یہاں سے ہی اصل کہانی شروع ہوئی اور سرکاری مال کھانے والی یہ بڑی بیگمات اور پیٹو حضرات نے اس سکول پر قبضہ کرنے کے لئے ہاتھ پائوں مارنے شروع کر دئیے۔ سرکار پر دبائو ڈالا کہ وہ اس پر قبضہ کرے اور اسے کسی این جی اوز کے حوالے کر دے۔ مگر اچھے کام والوں کے ساتھ خدا ہوتا ہے۔ یہ معاملہ عدالت کی نظر میں آیا تو چیف جسٹس نے اس پر قبضے کی سازشیں ناکام بنا دیں اور اسے ہرممکن تعلیمی سہولت فراہم کرنے کا حکم دے دیا ہے اور حکومت سندھ سمیت سب کو خبردار بھی کر دیا ہے کہ اس سکول کو نہ چھیڑا جائے۔ یوں اس سکول کے بچنے کی اُمید نظر آنے لگی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حقوق حاصل کر کے دم لیں گے۔ وسائل پر اختیار بڑے صوبے کا ہے۔ محمود اچکزئی
چلو جی الیکشن آتے ہی قوم پرست جماعتوں نے ایک بار پھر اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے۔ ان جماعتوں کی تان لے دے کر بڑے صوبے پر الزامات عائد کرنے پر ٹوٹتی ہے۔ یہ سب صرف الیکشن سٹنٹ ہے۔ اس طرح وہ عوامی جذبات مشتعل کر کے اپنی قوم پرستی کا الو سیدھا کرتے ہیں تاکہ لوگ انہیں ووٹ دیں۔
اب خیرسے پختونخواہ میپ بلوچستان میں عملی طور پر صوبے کی حکومت میں آدھی شریک ہے۔ گورنر آپ کا، سپیکر اسمبلی آپ کی، وزیر مشیر آپ کے۔ اعلیٰ پوسٹوں پر آپ کے رفقا و اقربا تعینات ہیں اس کے باوجود وہ صوبے کے عوام کو انصاف فراہم نہیں کر سکے عوام کے صوبے کے مسائل حل نہیں کر سکے تو اس میں سراسر نااہلی آپ کی اپنی ہے۔ اس میں بڑے صوبے کا کیا دوش۔ کیا بڑے صوبے نے آپ کے ہاتھ پکڑ رکھے ہیں۔ نوکریاں آپ ہڑپ کر گئے۔ آپ کی اقربا پروری کی داستانیں لوگوں کی زبانوں پر ہیں۔ پہلے آپ موجودہ وسائل میں سے لوٹ مار بند کر کے عوام کو دستیاب وسائل ہی مہیا کریں تو آدھی سے زیادہ شکایات ختم ہو سکتی ہیں۔ سرکاری ملازمت رشوت اور سفارش پر ملتی ہے۔ من پسند بھرتیاں ہو رہی ہیں۔ میڈیکل طلبہ کئی روز سے داخلہ ٹیسٹ میں نقل کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ کوئی نہیں سنتا۔ قومیت کے نام پر بھرتیاں ہو رہی ہیں۔ کیا یہ سب کچھ بڑا صوبہ کرا رہا ہے۔ یہ سب نیک کام آپ لوگ خود انجام دے رہے ہیں پہلے اس کا خاتمہ کریں۔ پھر اگر بڑا صوبہ حقوق نہ دے تو چھین لیں۔ مگر پہلے مہربانی کرکے صوبے کے عوام کے چھینے ہوئے حقوق تو انہیں عطا کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پنجاب پولیس نے اہلکاروں کو نقلی بریٹا پسٹلز تھما دیئے۔
کہتے ہیں کہ ڈائن بھی سات گھر چھوڑ کر وار کرتی ہے۔ مگر پنجاب پولیس نے تو ڈائن کو بھی مات دے دی۔ پنجاب پولیس کو اپنے اہلکاروں پر بھی رحم نہیں آیا۔ ان کی زندگی دائو پر لگانے لگی۔ اب یہی دیکھ لیں پنجاب پولیس کے اہلکاروں کو استعمال کے لئے 245 بریٹا پسٹلز فراہم کئے گئے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ یہ پسٹلز دیکھ بھال کر ہی خریدے گئے ہوں گے۔ ان کی خریداری کے سودے میں بھی کچھ کمایا گیا ہو گا جبھی تو بنا چیک کئے یہ 245 پسٹلز خرید کر اہلکاروں کے سپرد کئے گئے جب ان کے استعمال کی باری آئی تو ان میں سے اکثر نقلی نکلے یوں سمھ لیں یہ کھلونا پستول ثابت ہوئے۔ بات ایک دو کی بھی ہوتی تو برداشت ہو جاتی یہاں تو پورے 119 پستول نقلی نکلے۔ جی ہاں 245 میں سے 119 نقلی نکالیں تو باقی صرف 126 ہی اصل تھے جو کام آ سکتے ہیں باقی سب بے کار ہیں۔ اب دیکھنا ہے ان بے کار نقلی پستولوں کی خریداری کس نے کی اور اس کے ساتھ کیا ہو گا۔ ویسے بھی اپنے پیٹی بند بھائیوں کے لئے ہماری پولیس کے دل میں ہمیشہ نرم گوشہ رہتا ہے۔ خاص طور پر اگر وہ افسر رینک کے ہوں۔ یہ خریداری بھی عام پولیس مین نے نہیں کی ہو گی کسی اعلی افسر نے ہی کی ہو گی تو دیکھنا ہے اسے کب اس پستول کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جو چلتا بھی نہیں صرف ڈرانے کے کام ہی آ سکتا ہے یا پھر پانی کی دھار پھینکنے کے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صدر مملکت نے ایوان صدر میں پودا لگا کر شجرکاری مہم کا آغاز کردیا
یہ ہماری سالانہ شجرکاری مہم یونہی برسوں سے چلی آ رہی ہے۔ اگر یہ تمام پودے جو ہر شجرکاری مہم میں لگائے جاتے ہیں درخت بن پاتے تو آج پاکستان میں جگہ جگہ نہ سہی کچھ کچھ علاقوں میں سرسبز لہلہاتے یہ درخت گواہی دے رہے ہوتے کہ شجرکاری ہوئی ہے۔ مگر افسوس ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔ ابھی خیبر پی کے میں عمران خان نے ایک ارب درخت لگانے کا ٹارگٹ مکمل کرنے کا شوشہ چھوڑا مگر وہ بھی ڈرامہ نکلا کسی عالمی ادارے نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ خود خیبر پی کے حکومت بھی اس کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔ سچ پوچھیں تو یہ وزیراعظم ہائوس ہو یا صدارتی محل کہیں بھی جس طرح شجرکاری کی فوٹو کارروائی ہوتی ہے ہمیں خیبر پی کے میں بھی ڈرامہ کی ہی کارروائی لگتی ہے۔ اب اس شجرکاری مہم کا صرف یہ فائدہ نظر آتا ہے کہ صدر مملکت اپنے وسیع محل میں کچھ فاصلے تک چہل قدمی کر کے جاتے ہیں۔ وہاں پہلے سے موجود عملہ ایک گڑھا کھود کر تیار کرتا ہے جہاں صدر مملکت پودا گاڑ کر اس پر تھوڑی سی مٹی ڈالتے ہیں اور پھر پانی چھڑکتے ہیں۔ یوں سمجھ لیا جاتا ہے کہ پورے ملک میں اس طرح لاکھوں درخت لگیں گے۔ حیرانگی کی بات بھی یہی ہے کہ ایسا ہر مقام پر ہونے کے باوجود یہ سب لگائے گئے پودے جاتے کہاں ہیں۔ کیا نرسری والے جنہوں نے یہ پودے فروخت کئے ہوتے ہیں فوری آ کر کہیں یہ پودے اکھاڑ کر واپس تو نہیں لے جاتے۔ یوں ڈبل منافع کماتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭