وہ دن بھی آن پہنچا جب امریکا پاکستان کی امداد بند کرنے کے بعد اب مزید اقدامات کے لیے رواں ہفتے پیرس میں موجود ہے جہاں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(FATF) کے سامنے اپنا ’’مقدمہ‘‘ رکھے گا، جس کے مطابق پاکستان دہشت گردوں کو نہ صرف سپورٹ کر رہا ہے بلکہ اس کے لیے منی لانڈرنگ اور مالی معاونت میں بھی اہم حصہ دار بنا ہوا ہے۔ FATFکے ممبرز ممالک کی تعداد 37 ہے، جن میں امریکا ، برطانیہ، بھارت، ترکی، روس ، جاپان، آسٹریلیا، چین، فرانس، برازیل، جرمنی، کینیڈا، ملائشیا اور نیوزی لینڈ نمایاں ہیں۔ یہ ’’مہذب‘‘ ملک وہ ممالک ہیں جو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ ہیں، جنہیں امریکا نہ صرف لیڈ کر رہا ہے بلکہ دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر اپنے پسندیدہ مفادات کا تعین بھی کرتا ہے۔ اب رواں سال کی پہلی جنوری کو امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان مخالف ٹویٹ کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان جو خلا بنا تھا اس میں مزید بگاڑ پیدا ہو چکا ہے اور مذکورہ قرارداد منظور ہونے کے 80 فیصد چانسز ہیں۔ حالانکہ مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے مطابق واچ لسٹ میں پاکستان کی نامزدگی رکوانے کے لئے امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ رابطے میں ہیں، امید ہے امریکا نہ بھی مانا تو نامزدگی رکوا لیں گے۔ان کی سادگی پر داغ دہلوی کی غزل کے چند اشعار ذہن میں آرہے ہیں کہ
نتیجہ نہ نکلا، تھکے سب پیامی
وہاں جاتے جاتے یہاں آتے آتے
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
حقیقت میں پاکستان کا نام ’’گرے لسٹ‘‘ میں رکھا جا رہا ہے اس فہرست میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جنہوں نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد بند کرنے سے متعلق عالمی سطح پر بنائے گئے قواعد پر خاطر خواہ عمل نہیں کیا۔ اس فہرست میں شامل ہونے کے باعث پاکستان کو جن مزید نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اُن میں پہلا اورسرفہرست نقصان پاکستانی معیشت کا ہے۔ دوسرا بیرونی دنیا کے ساتھ پاکستان کے بچے کھچے بینکاری تعلقات خطرے میں پڑ جائیںگے۔ تیسرا چند ماہ بعد انتخابات ہیں تو ایسے میں نئی حکومت کو ایک بار پھر خزانے خالی ہونے کی ’’نوید‘‘ سنائی جائے گا ، جبکہ نئی حکومت ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس جائے گی، آئی ایم ایف تاریخ کی سخت ترین شرائط پر قرضے فراہم کرے گا اور اس بات کی گارنٹی حاصل کرے گا کہ ملک میں مزید مہنگائی ہو، بجلی کی قیمتیں بڑھائی جائیں، ڈالر ریٹ میں اضافہ کیا جائے اور سینکڑوں نئے ٹیکسز لگا کر عوام کا مزید بھرکس نکالا جائے۔ چوتھا یہ کہ پاکستان کی اقتصادی افزائش متاثر ہوگی۔ پانچواں نقصان یہ ہوگا کہ دنیا بھر کے مالی اداروں اور ریگولیٹرز کی جانب سے جانچ پڑتال سخت ہوجائے گی، اس کی وجہ سے دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت اور ملک میں بیرونی سرمایہ کاری پر سخت منفی اثرات مرتب ہوں گے ، یہی نہیں بلکہ تجارت پر ہونے والے اخراجات میں بھی اضافہ ہوگا۔ چھٹا نقصان یہ ہوگا کہ دنیا بھر میں یہ سمجھاجائے گا کہ پاکستان کے ساتھ تجارت میں ’’رسک‘‘ بہت زیادہ ہے، ایسی صورت میں عالمی اور دیگر ممالک کے مالیاتی ادارے پاکستانی بینکوں اور مقامی مالیاتی اداروں کے ساتھ لین دین میں نہ صرف محتاط ہوجائیں گے بلکہ اس سے بچنے کی کوشش بھی کریں گے۔ ساتواں نقصان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کئی ممالک پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات صرف اس وجہ سے ختم کردیں گے کہ انہیں امریکا و دیگر اتحادیوں کی ناراضگی نہ مول لینی پڑے یا بعد میں انہیں کسی قانونی مسئلے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ آٹھواں نقصان یہ ہوگا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر جو پہلے ہی 25 ارب ڈالر سے 18ارب ڈالر تک آچکے ہیں مزید کم ہو کر خطرناک صورتحال اختیار کر جائیں گے۔ نواں نقصان یہ ہوگا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے دوبارہ رجوع کرنا پڑے گا اور 2013کی طرز پر ’’بیل آئوٹ‘‘ پیکج لینا پڑے گا جس کے اثرات سے پوری قوم واقف ہو چکی ہے۔ دسواں نقصان یہ ہوگا کہ غیر ملکی بینکاری ادارے پاکستان میں اپنا کاروبار بند کرنے پر غور شروع کردیں گے اور بینک مالکان کو یہ خدشہ ہوگا کہ اگر پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی مدد کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا گیا تو صورتحال ایسی ہوجائے گی کہ ہر غیر ملکی بینک کو ایک مرتبہ پھر یہ جائزہ لینا ہوگا کہ وہ پاکستان میں اپنا کاروبار اسی طرح جاری رکھے یا ایسا کوئی اور فیصلہ کرے تاکہ ہر قسم کے رسک سے محفوظ رہ سکے۔
گیارہواں نقصان یہ ہوگا کہ پاکستان کے خلاف کارروائی کے خدشات کا اثر ملک کی سٹاک مارکیٹ پر پڑے گا جو پہلے ہی ایک منصوبے کے تحت گراوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ اسی سلسلے میں بارہواں نقصان یہ ہوگا کہ عالمی سطح پر کریڈٹ ریٹنگ ادارے پاکستان کا درجہ کم کر دیں گے اس کی وجہ سے پاکستان کے بین الاقوامی مارکیٹ سے سرمائے کے حصول پر لاگت زیادہ آئے گی اور سرمایہ حاصل کرنا دشوار ہوجائے گا اورتمام نقصانات سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی۔ بد قسمتی یہ ہے کہ امریکی صدر کی ٹویٹ اور پھر دیگر ذمہ داران کے بیانات اور ریاستی اقدامات کے جواب میں ہمارے یہاں زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ہو رہا۔ اس پر ستم یہ ہے کہ چند کج فہم سستی حب الوطنی کے مظاہروں کو قومی غیرت قرار دیا جا رہا ہے۔ اس ملک میں کسی کو علم نہیں کہ معاملات کو کیسے چلانا ہے؟ ایک بڑی پارٹی کے سربراہ کہتے ہیں ’’امریکہ کا غیر ضرور ی سفارتی عملہ نکال دیا جائے‘‘۔ مذہبی رہنماتو امریکی سفیر کو کان سے پکڑ کر سرحد پر چھوڑ آنے سے کم بات نہیں کر رہے ہیں اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس بد نصیب ملک کے پاس آج ایک بھی ایسا رہنما نہیں جس کا عالمی سطح پر ایک مدبر ، دانش ور اور زیرک سیاستدان کا تعارف ہو اور دنیا اس کے خیالات کو نظر انداز نہ کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ سے یہ دریافت کرنے کی ہمت کیوں نہیں کی جارہی ہے کہ ہمیں حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف کارروائی کا کہہ رہے ہیں مگر خود آپ افغان طالبان سے مذاکرات فرماتے ہیں اور داعش کے درندوں کو افغانستان میں منظم کر رہے ہیں ؟۔پوچھئے ان سے کہ ٹی ٹی پی فضل اللہ گروپ کا امیر فضل اللہ افغان صوبے نورستان کی جس عمارت میں مقیم ہے وہ عمارت کس کی ملکیت ہے؟۔ رہا سوال پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالنے کا ، ساعت بھر کے لئے رُکیئے وضاحتیں کیوں۔ کیوں نہ ہم اپنی پالیسیوں پرٹھنڈ ے دل سے ازسر نو غور کرنے کا حوصلہ کریں موجود ہ حالات میں حوصلے کی ہی اشد ضرورت ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے عالمی فورمز پر اکیلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کا دفاع کر رہے ہیں جن کا جرمنی میں سیکیورٹی کانفرنس کے دوران خطاب آج دنیا بھر کے ممالک میں ہیڈلائنز بنا ہوا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان، 40 برس قبل جو بویا گیا تھا اسے کاٹ رہا ہے اور سرحد کے ساتھ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں جبکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی اور جہاد کے حوالے سے مغرب میں پائی جانے والی غلط فہمیوں پر روشنی ڈالی اور وضاحت کرتے ہوئے پاکستان کا موقف پیش کیا۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ جہاد کا حکم دینے کا اختیار صرف ریاست کوہے اور خود پر قابو رکھنا بہترین جہاد ہے جبکہ تمام مکتبہ فکر کے علما نے جہاد کے نام پر ہونے والے نام نہاد جہاد کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔ جنرل قمر باجوہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور اس جنگ میں پاکستان کا کردار بے مثال ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے باعث ہونے والے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا پاکستان سیاحوں کے لیے پسندیدہ جگہ تھی لیکن پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بھاری قیمت ادا کی ہے۔
اب ایک طرف آرمی چیف کا بیان جبکہ دوسری طرف نواز شریف کے بیانات کو سامنے رکھ لیںاور فیصلہ خود کریں کہ کیا پاکستان ان اس صورت حال متحمل ہو سکتا ہے۔ اس وقت جب پاکستان کے لیے عالمی سطح پر معاشی پھندے کی تیاری کی جا رہی ہیں تو ایسے میں پاکستان کی تمام سیاسی اور عسکری قوتوں کی جانب سے یک زبان ہو کر ایک بڑے بیانیے کی ضرورت ہے۔ اس لڑائی میں پاکستان کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہیے ، پاکستان ہے تو ہم ہیں اور ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستان کو کمزور کرنے کی پالیسیوں کو تقویت دینے والے کہیں دشمن کی پالیسیوں کو پروان تو نہیں چڑھا رہے!!!