پاکستان کے لوگ محنت مزدور کر کے حلال ’’روزی‘‘ کماتے ہیں لیکن اپنے ملک میں پھیلی ’’بدامنی اور مخدوش ‘‘سیاسی صورتحال کے باعث وہ اپنی جائیداد اور بزنس کے بارے ’’فکر مند ‘‘ہوتے ہیں ،تاکہ ان حالات میں ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی پر کو ئی ڈاکہ نہ ڈال لے ۔ابھی حال ہی میں انکشاف ہوا کہ سات ہزار پاکستانیوں نے پچھلے کئی سالوں کے دوران دوبئی میں 1100ارب رو پے کی جائیدادیں خریدی ہیں ،جن میں سیاستدانوں کے علاوہ ریٹائر جنرلز ،سابق ججز ،بیوروکریٹس ،تاجر ،میڈیا پرسنز اور شوبز سے تعلق رکھنے والے متعدد لوگ شامل ہیں۔ دوبئی میں کی جانے والی ابتک کی غیر ملکی سرمایہ کاری میں پاکستانیوں کایہ ’’تیسرا ‘‘بڑا حصہ ہے، جس پر عالمی سطح پر تو شاید کسی کو حیرانی نہ ہوئی ہو کہ اربوں ڈالرز کے مقروض پاکستان کے شہری اپنے ملک کی بجائے کسی دوسرے ملک میں جاکر اتنی بڑی سرمایہ کاری کیسے کر سکتے ہیں؟ اور پھر یہ بھی کہ اتنا بڑا ’’سرمایہ‘‘ ان کے ہاتھ کیسے لگا؟ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور سوال نے بھی جنم لیا ہے کہ آخر پاکستانی لوگ اپنے ملک میں ’’سرمایہ‘‘ لگانے کو ترجیح کیوں نہیں دیتے ؟درحقیقت ہمارے ملک میں جس کے پاس بھی پیسہ نظر آئے اسے’’ بھتے کی پرچی‘‘ مل جاتی ہے ۔اگر وہ بھتہ نہیں دیتا تو اسکے بچوں اور خاندان پر زمین تنگ کر دی جاتی ہے ،جس کے باعث اکثر پاکستانی اپنی جان بچا کر بیرون ملک جانے میں’’ عافیت‘‘ سمجھتے ہیں ۔اس لیے خود پاکستانیوں کو اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی ۔کیونکہ قدرت نے پاکستان کو’’ بیش بہا وسائل‘‘ اورصلاحیتوں و مہارتوں سے نوازا ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی شہریوں کا ’’معیار زندگی‘‘ دنیا کے بہت سارے ممالک کے مقابلے میںآج بھی زیادہ بہتر ہے ۔ پاکستانیوں کی بیشتر تعدادباہر جانے کی بجائے اپنے ہی ملک پر اعتبار کرتے ہوئے یہاں سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دینے کو تیار ہے لیکن موجودہ حالات میں پاکستانیوں کو اپنے ملک میں اپنا سرمایہ محفوظ نہیں لگتا۔ آئے روز کی ہڑتالیں جلائو گھیرائوکے باعث کھربوں روپے کا ملکی خزانے کو نقصان پہنچ چکا ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ دوبئی ،لندن ،ملائشیاء حتیٰ کہ بنگلہ دیش کے اندرسرمایہ کاری کر نے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
ریاست اور شہری بھلے کتنے مالدار ہوں، ریاست کے پاس کتنے ہی ہتھیار اور جنگی مشینری ہو۔ جب تک داخلی استحکام نہ ہو کسی ریاست کوطاقتور نہیں کہا جاسکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مدت سے ایسے لوگ حکمران بن رہے ہیں جو قوم اور ریاست کے مکمل مفہوم سے’’ نابلد ‘‘ہیں بلکہ ریاستی ترقی و استحکام کے متعلق ان کے تصورات بھی جدید’’ جمہوری روایات‘‘ کے خلاف ہیں۔ دنیا میں جہاں جہاں پارلیمانی جمہوریت پائی جاتی ہے وہاں عوام کے نمائندوں کو ’’بے تحاشا اختیارات ‘‘حاصل ہیں۔ کئی ریاستوں نے پارلیمنٹ کو مخصوص مقدمات میں اعلیٰ ترین اپیلٹ کورٹ کا درجہ تک دے رکھا ہے لیکن اس کے متوازی یہ سچ بھی موجود ہے کہ ان معاشروں میں کسی عوامی نمائندے کا’’ بدعنوانی یا بے ضابطگی‘‘ میں ملوث ہونا ممکن نہیں۔ مالیاتی بے ضابطگی تو دور کی بات ہمارے نزدیک’’ مغربی معاشرے اخلاقی پستی ‘‘میں گھرے ہوئے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہاں کسی سرکاری و غیر سرکاری ادارے یا ذمہ دار عہدے پر کام کرنے والا شخص ذرا سی’’ غیر اخلاقی ‘‘حرکت کے بعد اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا۔
ہمارے ہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے ’’سیاسی اثر و رسوخ‘‘ سے ’’آلودہ‘‘ ہو چکے ہیں۔ حکمران شخصیات نے پولیس، ایف آئی اے اور دیگر اداروں میں اپنے’’ وفاداروں‘‘ کی فوج بھرتی کر رکھی ہے۔ نیب کے قیام کا بڑا مقصد یہی تھا کہ اس ادارے کو سیاسی مداخلت سے پاک رکھا جائے۔
پانامہ لیکس مقدمے کی سماعت کے دوران نیب اور اس کے سابق چیئرمین کی ناقص کارکردگی پر سپریم کورٹ نے کئی بار انتباہ کیا۔ طویل مدت تک غیرفعال رہنے کی وجہ سے جہاں عوامی خزانے کی’’ لوٹ کھسوٹ ‘‘کا عمل روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی، وہاں عوامی حلقوں میں نیب کی اپنی ’’ساکھ ‘‘بری طرح مجروح ہوئی۔ آج یہ تاثر عام ہے کہ نیب سمیت پاکستان کے ادارے ریاست کو نقصان پہنچانے اور عوامی خزانے کو لوٹنے والوں کو تحفظ فراہم کررہے ہیں۔بیس کروڑ انسانوں پر مشتمل میرے پیارے پاکستان کو قدرت نے ہر طرح کی دولت سے مالا مال کیا ہے ،لیکن بد قسمتی سے ژولیدہ فکری، مفلسی کردار، عدم رواداری ،انتہا پسندی ،دوسروں پربزور اپنی رائے مسلط کر نے ،دہشت گردی ،پیسے لیکر دوسری اقوام کے لیے لڑائیاں لڑنے ،معاشرتی ہیجان اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑ نے مرنے کے لیے تیار ہوجانے جیسے ہمارے رویے عالمی سطح پر ہماری پہچان بن چکے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ رونما ہو تو بڑی آسانی سے اس کے’’ تانے بانے ‘‘پاکستان کے ساتھ ملا دیے جاتے ہیں ۔ جب کراچی ایک ایسا عالمی شہر بننے جارہا تھا جہاں دنیا بھر کی ’’معاشی سر گرمیا ں‘‘ گھر کر لیتیں لیکن غیروں کی سازشوں کی تکمیل کے لیے خود پاکستانیوں نے ہی اپنے’’ کندھے ‘‘پیش کر کے کراچی کو ’’کھنڈرات ‘‘میں تبدیل کر دیا ۔جہاں ہر وقت موت ناچتی تھی جس کے باعث سرمائے کا رخ دوبئی کی طرف مڑ گیا۔سی پیک کے بعد پاکستانیوں کو قدرت نے ایک بار پھر یہ موقع عطا کیا ہے اب اگر ہمارے سیاستدان اس منصوبے میں شفافیت قائم رکھتے ہیں تو یقینی طور پر پاکستانی اپنا سرمایہ دوبئی یا کسی دوسرے ملک میں لگانے کی بجائے اپنے ہی ملک میں صنعت سازی کے لیے بروئے کار لانے کو ترجیح دیں گے۔ اب ملک میں امن و امان کی صورتحال بھی کافی حد تک بہتر ہے اور دہشت گردی کا سورج بھی تقریباً تقریباً غروب ہو چکا ہے ۔ضرورت صرف اور صرف سرمایہ کار کو اس کے سرمائے کے تحفظ کے یقین دلانے کی ہے ۔جس کے لیے اب کوئی’’ امر مانع ‘‘نہیں ہے ۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے سپریم کورٹ میں پاکستانی شہریوں کے بیرون ملک اکا ئو نٹس ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران رقم واپس منتقل کرنے میں بے بسی کا اظہار کر تے ہوئے کہا ہے کہ مختلف قانونی پیچیدگیوں کے سبب رقم کی واپسی اور احتساب کے مطلوبہ نتائج کی راہ میں’’ قدغن‘‘ حائل ہے۔ بیرون ملک معلومات کی فراہمی کا لیگل فریم ورک موجود نہیں اس قدغن کو قانون میں ترمیم سے دور کیا جاسکتا ہے۔لیگل فریم ورک کی رکاوٹیں دور کرنے کیلئے ٹریٹیز کرنے کی ضرورت ہے۔اور اس کے علاوہ قومی دولت کے ضیاع کا احساس ہونا بھی ضروری ہے تاکہ ہم مطلوبہ نتائج حاصل کر سکیں ۔اور ہمارے عوام سیاستدانوں پر اعتماد کرنے کے لیے بھی تیار ہوں ۔