امریکی تھنک ٹینک FREED HOUSE نے اگلے روز جمہوریت کے فروغ اور معاشروںمیں شخصی آزادی پر کی گئی اپنی ایک تحقیقاتی جائزہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے مختلف سیاسی نظاموں کے مقابلے میں جمہوریت کی پُرزور مخالفت کرنے والے رحجانات میں کہیں زیادہ شدت سے اضافہ ہو ہے جس سے ڈکٹیٹر شپ مضبوط ہونے کا اندیشہ ہے تاہم جمہوریت پر یقین رکھنے اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے کام کرنے والوں نے اِس اقدام پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اِسے عوامی حقوق کی موت قرار دیا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک نے رپورٹ میں مزید کہا کہ ماضی کے مقابلے میں دنیا کے کئی ممالک میں جمہوری نظام آج بھی کمزور ہے تاہم ایسے وہ ممالک جہاں جمہوریت کو اکثر خطرات لاحق تھے وہاں کافی حد تک بہتری پیدا ہوئی ہے…ایسے ممالک میں پاکستان کی مثال سرفہرست ہے جہاں جمہوریت میں استحکام پیدا ہوا ہے۔
دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں کام کرنے والے ایسے متعدد THINK TANK نے سال کے تین سو پینستھ دن اِسی طرح کی تحقیقاتی جائزہ رپورٹیں تیار کرنے کے لیے وقف کر رکھے ہوتے ہیں۔ مختلف شعبۂ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ان ماہرین کی مرتب کردہ اِن رپورٹوں سے حکومتوں کو اپنی ملکی و قومی پالیسیاں مرتب کرنے میں جہاں مدد ملتی ہے وہاں قومی اداروں میں پایا گیا جمہوری عمل بھی مستحکم ہوتا ہے۔
پاکستان میں جمہوری استحکام کی خوش کن مگر تاریخی خبر دینے پر تھنک ٹینک کے اِن ماہرین کے منہ میں ’’گھی شکر‘‘…ورنہ امریکی صدر ٹرمپ تو پاکستان کو سرے سے پُرامن‘ جمہوری اور دہشت گردی کے خلاف سب اتحادیوں سے زیادہ قربانیاں دینے والا ملک ہی تصور نہیں کر رہے تھے۔ امریکی ماہرین کے پاکستان کو دئیے اس جمہوری اعزاز سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ پاکستان جسے بھارت اور اسرائیل سمیت امریکہ بھی دہشت گردوں کی پناہ گاہ تصور کرتا تھا محض ایک پراپیگنڈہ تھا…جس کا جواب ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کو دینا ہے۔
مارچ 2018 میں سینٹ کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں مگر ملک کے بعض سیاسی پنڈتوں نے سینٹ انتخابات سے قبل ہی پاکستانی سیاست میں آنے والے کسی بڑے بھونچال کی پیشن گوئی کا سلسلہ ابھی سے شروع کر دیا ہے؟
قومی لٹیروں‘ راشیوں اور منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے نشان عبرت بنانے کی بازگشت بھی سنائی دی جا رہی ہے جبکہ پاکستان کی عدلیہ اور مسلح افواج کے تاریخی کردار کی دنیا بھر میں پذیرائی بھی جاری ہے۔
دوسری جانب ہمارے بیشتر سیاستدان اور سیاسی پارٹیوں کے سربراہانِ ایسا مفاداتی کھیل کھیلنے کیلئے کوشاں ہیں جس سے مہذب دنیا کے جمہوری معاشروں میں پاکستان کے اس کمزور جمہوری عمل کی بازگشت ضرور سنائی دے گی!
ملک میں جاری جمہوری عمل کے حوالہ سے ہی اب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ آئندہ ماہ ہونے والے سینٹ انتخابات میں حصہ لینے والے یا نامزد اُمیدواروں کے لیے سیاسی جماعتوں نے 25 سے 30 کروڑ روپے فی سینٹر قیمت لگا کر یہ ثابت کر دیاکہ ’’ہماری جمہوریت‘‘ میں سینٹر منتخب ہونے کے لیے اُمیدوار کا ارب یا کھرب پتی ہونا اولین شرط ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میرے لکھے لفظ ’’قیمت‘‘ سے بعض اُجلی پیشانیوں پر سلوٹیں پڑیں گی مگر کیا کروں‘ اپنی ’’بے لگام جمہوریت‘‘ کو جب لاکھوں‘ کروڑوں اور اربوں میں تُلتے‘ غریب ونادار اور بے آسرا افراد کو شاہراؤں‘ ہسپتالوں‘ سٹیشنوں اور پارکوں میں بے یارو مدد گار اور ’’جعلی ملزموں‘‘ کو نہروں اور دریائوں کی پٹڑیوں پر تھانیداروں کے ہاتھوں ’’جعلی پُلس مقابلوں‘‘ میں پھڑکاتے دیکھتا ہوں تو ’’لفظ قیمت‘‘ سے زیادہ موزوں لفظ ڈھونڈ نہیں پاتا۔
اب اِسے ہم اپنی جمہوریت کا کمال ہی کہہ سکتے ہیں کہ سنیٹر بننے کے لئے بعض ارب اور کھرب پتی خدام اور سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو اپنے بند خزانوں کا منہ اب کھولنا پڑے گا جبکہ دوسری جانب سیاسی رہنمائوں کے قریب تر رہنے والے بعض وہ اراکین جنہیں ’’لینا دینا خاک محبت پاک‘‘ کے زمرے میں لا کر پارٹی سربراہان خود ہی نامزد کریں گے مسکراتے ہوئے سنیٹر کے عہدے پر براجمان ہو جائیں گے۔ ایسی شخصیات کے لیے ’’سنیٹر‘‘ نامزد کئے جانے کا سودا گو مہنگا نہیں مگر بچارے وہ عوام جن کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ’’اراکین اسمبلی‘‘ کے ووٹوں سے ہی ’’سنیٹرز‘‘ کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا سوائے بددعائیں دینے کے کچھ کر نہیں پاتے۔
میں دعوے سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے 60 فیصد عوام کو سنیٹر کے انتخاب اور ایک سنیٹر کی بنیادی ذمہ داریوں کا سِرے سے ادراک ہی نہیں اِسے ہماری جمہوریت کی ستم ظریفی کہہ لیں یا پھر شخصی مفاد پرستی کہ ذاتی کاروں‘ پراڈوز‘ لینڈکروزرز اور بی ایم ڈبلیوز پر لگائی سنیٹر‘ ایم این اے‘ ایم پی اے‘ ممبر ضلع کونسل اور چیئرمین یونین کونسل کے ناموں سے لگائی GREEN - GOLD رائونڈ پلیٹوں سے یہ عوامی نمائندے اپنی انا کی تسکین کو اس طرح کے غیر قانونی ’’پروٹوکول‘‘ سے جس طرح پورا کرتے ہیں دنیا کے مہذب جمہوری معاشروںمیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
برطانیہ جسے آج بھی ’’جمہوریت کی ماں‘‘ کہا جاتا ہے جہاں کی درس گاہوں سے ہمارے کئی سیاستدان فارغ التحصیل ہیںمگر افسوس ! جمہوریت کی مثالیں تو وہ برطانوی اقدار کے حوالے سے دیتے ہیں۔ ملک میں عملی جمہوریت کے نفاذ کیلئے وہاں کا سیاسی ترازو…بھی مختلف ہے۔
میرے علاقے کا رکن پارلیمنٹ HOUSE OF COMMAN جانے کے لئے سخت سردی کے باوجود آج بھی اپنی پُرانی بائیسکل اور انڈر گرائونڈ ٹرین کا استعمال کرتاہے یہی نہیں ہر ماہ کے پہلے ہفتے اپنے حلقہ میں پیدل سفر کرنے کے بعد بچوں‘ نوجوانوں‘ بے روزگاروں‘ خواتین اور عمر رسیدہ افرادسے FACE TO FACE ملاقاتیں کر کے ان کے مسائل دریافت کرنا اپنی عوامی ذمہ داری کا وہ بنیادی حصہ قرار دیتا ہے اُس کی کامیابی اور ہردلعزیزی کا راز ہی یہ ہے کہ عوامی مسائل اور علاقے کی خوشحالی کے لئے ’’کار‘‘ کے بجائے وہ پیدل اوربائیسکل پر سفر کرنا اپنا سب سے بڑا عوامی اعزاز تصور کرتا ہے اِسے کہتے ہیں جمہوریت!