سیشن عدالتوں میں رائج ’’جسٹس آف پیس‘‘ نظام کو مزید مؤثر بنانے کا فیصلہ
لاہور(ایف ایچ شہزاد سے) پنجاب کی سیشن عدالتوں میں رائج ’’جسٹس آف پیس‘‘ کے نظام کو مزید موثر بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ ذمہ دار عدالتی ذرائع کے مطابق جوڈیشل تنظیموں، وکلاء اور بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے ارسال کی گئی تجاویز کا جائزہ لے کر ضابطہ فوجدار ی میںترامیم کیلئے سفارشات مرتب کی جائیں گی۔ جس کا مقصد 22اے 22بی کے تحت سائلین کی داد رسی، پولیس کے احتساب اور سیشن عدالتوں میں وقت کا ضیاع روکنے کو یقینی بنانا ہے۔ اعلی عدلیہ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 40ہزار سے زائدافراد کو پولیس نے داد رسی فراہم کرنے سے انکار کیا جس کے خلاف 37اضلاع کی سیشن عدالتوں میں اندراج مقدمہ، حبس بے جا اور ہراساں کئے جانے سے متعلق درخواستیں دائر کی گئیں۔ قانونی حلقوں نے ماتحت عدالتوں سے22۱ے22بی کی رٹ درخواستوں میں جوڈیشل اختیارات دینے کی تجویز دی ہے تاکہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکے۔وکلاء کے مطابق 22اے 22بی کی رٹ درخواستوں میں فاضل عدالتیں درخواست گذار کا بیان ریکارڈ کر کے قانون کے مطابق کارروائی کی ہدائت کرتی ہیں جو ضابطہ فوجداری کے سیکشن154 میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ یوں ضابطہ فوجداری میں 22اے 22بی اور سیکشن 154کی ایک ہی نوعیت ہے۔ اندراج مقدمہ، حبس بے جا اور ہراساں کرنے کے خلاف دائر زیادہ تر درخواستوں میں پولیس عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتی۔اس لئے سائلین کو سیشن عدالتوں کے بعد ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ 22اے22بی کی رٹ دائر کرنے سے پہلے ایس ایس پی کو درخواست دے کر کمپیوٹرائزڈ ڈائری نمبر کے حصول کو لازمی قرار دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے تاکہ پولیس کو درخواست دئیے بغیر دائر کی جانے والی رٹ پیٹیشنز کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ ایک اور تجویز کے مطابق پرچہ غلط ثابت ہونے پر درخواست دائر کرنے والے کومتعلقہ جرم کی نصف سزا دی جائے اور ضابطہ فوجداری کے سیکشن182میں بھی ترمیم کی جائے۔ عدالتی ذرائع کے مطابق اندراج مقدمہ میں زیادہ تر درخواستوں میں پولیس سائلین کی یہ کہہ کر داد رسی نہیں کرتی آپ نے عدالت سے رجوع کیوں کیا۔ پولیس عدالتی احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے سائلین کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ154کے تحت بیان ریکارڈ کر کے قرار دے دیتی ہے وہ پہلے تفتیش کرکے اندراج مقدمہ کے بارے میں غور کریں گے۔ہراساں کرنے کے خلاف درخواستیں دائر ہونے کے بعد کئی سائلین کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بناتے ہوئے دیگر مقدمات میں ملوث کر دیا جاتا ہے۔اندراج مقدمہ، حبس بے جا اور ہراساں کرنے کے خلاف اگرچہ براہ راست ہائی کورٹ میں رٹ درخواستیں دائر کی جا سکتی ہیں مگر زیادہ تر درخواستوں میں فاضل عدالتیں پہلے سیشن ججوں سے داد رسی کیلئے رجوع کرنے کا حکم دیتی ہیں۔عدالتی ذرائع کا کہنا ہے سیشن کورٹس میں اپیلوں کے علاوہ ٹرائل بھی کئے جاتے ہیں جبکہ ماتحت عدالتوں میں ججز کی پہلے ہی کمی ہے۔ان عدالتوں میں22اے اور22بی کے تحت دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے روٹین کے مقدمات بھی متاثر ہوتے ہیں۔اس بارے میں وکلاء کا کہنا ہے 22اے22بی کو موثر بنانے کیلئے تجاویز پر غور خوش آئند ہے۔ سیشن عدالتوں کے احکامات کو پولیس سنجیدگی سے نہیں لیتی جبکہ یہ بنیادی حقوق کی فراہمی کا معاملہ ہے اس لئے یہ درخواستیں ہائی کورٹ میں سنی جانی چاہئیں۔