کرپٹ پولیس مافیا اور سفارشی تعیناتیاں
زمانہ طالب علمی میں سنتے تھے کہ محکمہ پولیس کے پاس بڑے اختیارات ہوتے ہیں۔ کسی گناہگار کو بے گناہ اور بے گناہ کو گناہگار ثابت کرنے میں پولیس کے پاس کئی طریقے موجود ہوتے ہیں اور پولیس یہ تمام طریقے سیاسی مداخلت کی وجہ سے اور اپنے ذاتی و مالی مفادات کیلئے استعمال کرتی ہے۔ حکومتی عہدیداروں و پولیس کے اعلیٰ افسران کی جانب سے تھانہ کلچر میں تبدیلی اور سیاسی مداخلت کے خاتمے کے دعوے ہوتے رہے ہیں مگر عملی اقدامات نہیں کئے گئے جس وجہ سے آج بھی پولیس کانسٹیبل سے لیکر آئی جی پنجاب تک کے تبادلے و تعیناتیاں سیاسی سفارش پر ہوتی ہیں اور پسند ناپسند کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ تھانوں میں پکڑ دھکڑ کے ذریعے عام شہریوں کی تذلیل کی جاتی ہے جبکہ جرائم پیشہ عناصر آزاد ہیں۔ چند روز قبل ایک ممبر اسمبلی سے سی پی او آفس میں ملاقات ہوئی تو اس دوران ایک ڈی ایس پی نے ممبر اسمبلی سے شکایت کی کہ آپ کی مجھ سے کیا ناراضگی تھی کہ آپ نے اپنے رہائشی سرکل سے میرا تبادلہ کروا دیا ہے جس پر اس ممبراسمبلی نے کہا آپ اچھے اور تابعدار افسر ہیں مگر وہاں پر تعینات ہونے والے افسر نے صوبائی وزیر کے ذریعے تعیناتی کروائی ہے اس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس دوران اس ممبر اسمبلی نے ایک دلچسپ بات کی کہ آج کل آئی جی پنجاب کمزور جبکہ ایک تھانہ کا ایس ایچ او طاقتور ہے کیونکہ آئی جی پنجاب کو ہر وقت خدشہ رہتا ہے کہ حکومتی عہدیداروں کی بات نہ مانی تو پوسٹنگ سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا اور کوئی متبادل بھی نہیں۔ جبکہ علاقہ ایس ایچ او من مرضی کر لیتا ہے کیونکہ اس کے پاس متبادل راستے موجود ہیں۔ ممبر اسمبلی سے 10 منٹ کی ملاقات کے دوران یہ بات ثابت ہو گئی کہ پولیس افسران کے تبادلے و تعیناتیاں حکومتی عہدیداروں و سیاستدانوں کی مرہون منت ہیں جو افسر خود کسی سفارش پر تعیناتی کروا کر آتا ہے تو وہ ماتحت افسران و اہلکاروں کے تبادلے بھی سفارش پر کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ پنجاب میں تو اس وقت صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ جس کی سفارش نہیں اس کی پوسٹنگ نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں ایک پولیس افسر نے غیر رسمی گفتگو کے دوران بتایا کہ ایک وزیر نے ان کو ڈی پی او تعینات کروانے کیلئے ذاتی کوشش کی مگر لاہور کی لابی آڑے آ گئی اور اپنا من پسند افسر وہاں پر تعینات کروا لیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب پولیس افسران کی تعیناتیوں میں بدانتظامی ہو گی اور میرٹ کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا تو رزلٹ بھی ایسے ہی ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں لاقانونیت بڑھ گئی ہے۔ آئے روز زیادتی و تشدد کے واقعات پیش آ رہے ہیں مگر پولیس ملوث ملزمان کے خلاف بروقت کارروائی نہیں کرتی اور اگر واقعہ میڈیا پر اجاگر ہونے پر کارروائی کی بھی جاتی ہے تو تفتیش کے دوران سیاسی مداخلت اور نوٹوں کی چمک سے کیس کو کمزور کر کے ملزمان کو فائدہ پہنچا دیا جاتا ہے۔
ملتان میں ان دنوں زکریا یونیورسٹی طالبہ زیادتی سکینڈل کی تحقیقات جاری ہیں جس میں ملزمان کو بچانے کیلئے سیاسی مداخلت حد سے بڑھ گئی جبکہ دولت کا بھی بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے امکان ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس ملزمان کو ریلیف دینے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ اس کیس کے حوالے سے پولیس افسران پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ دوسری جانب ضلع ملتان میں پولیس کی کرپشن حد سے بڑھ گئی ہے۔ تھانیدار و اہلکارلوٹ مار میں مصروف ہیں۔ تھانوں میں ٹاؤٹ مافیا کا راج ہے۔ قبضہ گروپوں نے شہر میں پنجے گاڑ لئے ہیں اور پولیس کی ملی بھگت سے شہریوں کی جائیدادیں ہتھیائی جارہی ہیں جبکہ منشیات‘ بھتہ خوری‘ فحاشی‘ سود‘ جعلسازی اور فراڈ میں ملوث مافیا بھی پولیس کی سرپرستی سے بے لگام ہو گیا ہے۔ ڈکیتی و چوری میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کرائم کے خاتمے کیلئے بنائی گئی ڈولفن فورس بھی کرپشن کے راستے پر گامزن ہے۔ ڈولفن اہلکاروں نے شہریوں پر تشدد و بدتمیزی معمول بنا لیا ہے۔ سی پی او ملتان کرپٹ پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کریں تو جرائم کا تدارک ممکن ہو سکتا ہے۔