ثقافتی جنگ … زیادہ خطرناک
ٹیکنا لوجی کی دوڑ نے دنیا کی شکل کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ جنگ ، نیزہ ، تلوار ، بم، دھما کے، ہتھیار یہ سب ٹیکنالوجی کی خوفناک ترین شکلیں ہیں جواب بھی دنیا میں موجود ہیں اور دنیا کو تہہ و بالا کر رہی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ طاقتور قومو ں کی طرف سے ایک اور ایسی جنگ بھی چھیڑ دی گئی ہے جو بندوق تو نہیں اٹھاتی لیکن پھر بھی بڑی کامیابی سے لڑی جا رہی ہے اور یہ جنگ یقینا زیادہ خطرناک ہے کہ یہ قوموں کے نظریات تبدیل کر رہی ہے اور یوں مغلوب اور کمزور قوموں کی جڑیں کاٹ رہی ہے۔ اس جنگ نے قوموں کے نظریات ، انکی اقدار حتیٰ کہ ان کے اعمال تک بدل دئیے ہیں وہی فعل جو قابل اعتراض تھا قابل فخر بنتا جا رہا ہے بلکہ میں تو کہوں گی کہ اس نے مذہب تک کو نہیں چھوڑا کہ جو افعال مذہب میں قابل اعتراض تھے ان کو یوں عام کر دیا جیسے وہ کبھی قابل اعتراض رہے ہی نہ ہوں اور میڈیا کی دوڑنے اگر جغرافیائی سرحدیں نہیں مٹا ئیں تو نظریاتی سرحدوں کو ایک ایسا دھچکا ضرور لگا دیا ہے کہ اب تو خوف آتا ہے اور لگتا ہے کہ یہ بھی کوئی دم کی بات ہے اور مٹ جائیں گی ۔ آج کل ٹیلی وژن پر جو طوفان بد تمیزی مچا ہوا ہے اُس نے تو معاشرے کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ لباس کسی بھی معاشرے کی اولین پہچان ہے کیونکہ کسی بھی غیر کی نظر سب سے پہلے اس پر پڑتی ہے اور اسلام میں لباس کا مقصدزیب و زینت اور ستر پوشی دونوں ہے اور یوں ایک باحیا اور پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کا مقصد پورا کرنا ہے لیکن ہمارے آج کے ’’مغرب زدہ میڈیا‘‘ نے جہاں اور کئی قومی معاملات میں قومی وقار کی دھجیاں بکھیردی ہیں وہی اپنے لباس کو بھی مذاق بنا کر تار تار کر دیا ہے۔ جو اشتہارات بنائے اور دکھائے جا رہے ہیں وہ پورا خاندان اکٹھے دیکھنے کی ہمت نہیں کر سکتا یقینا شریف خاندان اسے بند کر دیتے ہوں گے کیونکہ جو ناچ گانا اورجن لباسوں کے ساتھ انہیں پیش کیا جاتا ہے وہ شرافت کی کسی تعریف پر پورا اترتے ہیں نہ اسلام کی اور نہ پاکستانیت کے بلکہ مشرقیت کے بھی نہیں،نہ معلوم یہ لباس کس معاشرے کے عکاس ہیں۔ ساڑھی ایک معقول لباس ہے لیکن اس کی تراش خراش کا فائدہ اٹھا کر اس کو خاصے نا معقول طریقے سے پہلے بھی پہنا جاتا تھا اور اب تو انڈین فلموں اور ڈراموں کے زیر اثر اس کو بیہودگی کا سمبل بنایا جا رہا ہے اسے پہلے ’’سلیو لیس ‘‘اور اب’’بیک لیس‘‘ کی حد تک پہنچا دیا گیا ہے اور اسے اس حالت تک پہنچانے کی کوئی تو جیہہ ان کے پاس نہیں۔ اِن خواتین کے ملبوسات کے بارے میں مزید کھل کر بات کرنے سے مجھے خود اپنی بات ناشائستہ ہو جانے کا خوف ہے اس لیے آئیے لباس سے ہٹ کر ان ماڈلز کے حرکات وسکنات کا جائزہ لے لیں تو یہاں سر ایک دفعہ پھر شرم سے جھک جاتا ہے کہ کچھ پروگراموں میں شریک خواتین اور مردوں کا ایک دوسرے سے گلے ملنا بلکہ بوسہ لے لینا بھی اب معیوب نہیں سمجھا جا رہا کیا اسلام اس کی اجازت دے سکتا ہے اور اگر اس سے بھی آپ نیچے آئیں تو اس کی اجازت تو کوئی مشرقی معاشرہ بھی نہیں دیتا تو پھر آخر ہم کس معاشرے میں رہتے ہیں اور کس احساس کمتری میں مبتلاء ہیں اور آخر ہم دنیا کو اپنے بارے میں کونسا تاثر دینا چاہتے ہیں ۔’’روشن خیال پاکستان‘‘ اور’’ بے رہرو پاکستان‘‘ میں فرق ہو نا اور رکھنا بہت ضروری ہے ۔ میڈیا معاشرے پر بہت زوردار طریقے سے اثرانداز ہوتا ہے جس کا ثبوت آج کی نوجوان نسل کا لباس اور طور طریقہ ہے جس پر وہ رنگ غالب آرہا ہے جو میڈیا پر دکھا یا جا رہا ہے نہ کہ وہ جو ان کے بزرگوں کا تھا ۔تبدیلی نہ تو بری چیز ہے نہ اس سے بچائو ممکن ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں لیکن اس دوڑمیں اپنے معاشرے اور روایات حتیٰ کہ مذہب کا بھی قتل عام کسی بھی طرح روانہیں اور اگر میڈیا صرف اپنے اثاثے بڑھانے کی خاطر اپنی ریٹنگ میں اضافہ کرنے کے لیے اور ہر چینل دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے اخلاقیات کی تمام حدود پار کر رہا ہے اور بڑی آزادی سے کر رہا ہے تو آخر ہماری حکومت کہاں سوئی ہوئی ہے اور پیمراکے ذمہ دار کس چیز کی تنخواہ لے رہے ہیں ۔ عدالتیں کیوں اس پر خاموش ہے کیا یہ عام آدمی کی دلچسپی کی بات نہیں ہے یا قومی اہمیت کی نوعیت کا معاملہ نہیں یا پھر اِن حرکات سے ہمارے بڑوں کے مفادات پر زد نہیں پڑتی یاہم نے اپنی کمتر حیثیت کو بھی تسلیم کر لیا ہے اور ثقافتی جنگ میں اپنی شکست بھی تہہ دل سے مان لی ہے ۔ہم تو اپنے بچوں کو بھی کارٹون کے نام پر وہ کچھ دکھا رہے ہیں جس کانہ تو ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق ہے نہ اقدار سے اور نہ اخلاق سے۔ فیشن شوز سٹیج پرہوں تو ایک مخصوص طبقہ ہی دیکھتا ہے لیکن ہمارا میڈیا ان بیہودہ ملبوسات کو پورے ملک کے سامنے کر دیتا ہے اور ان کی شان میں جو تعریفی کلمات بولے جاتے ہیں ان کا تو کوئی جواب نہیں اور ہر لباس کو مشرق و مغرب کا حسین امتراج کہہ کر معلوم نہیں کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہر حال میڈیا تو یہ سب کر ہی رہا ہے لیکن سب سے بڑی ذمہ داری تو حکومت کی ہے کہ اگر وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے تو معاشرے کو دوانتہائوں میں بٹنے سے روک دے ورنہ نہ صرف ہم شدت پسندی کی جس آگ میں جل رہے ہیں اُس میں مزید اضافہ ہوگا بلکہ ہم اپنی قومی شناخت بھی مکمل طور پر کھودیں گے اور عدالتیں بھی جہاں کئی اداروں کو کئی باتوں کے لیے پابند کرتی ہیں وہیں اگر وہ میڈیا کو بھی ایک ضابطہء اخلاق کا پابند کردے تو شاید ہم طمع، حرص، لالچ، بناوٹ ،کرپشن اور بے راہروی کے مسائل پر قابو پالیں گے جو اور ذرائع کے ساتھ ساتھ اس ذریعے سے بھی بڑی تیزی سے معاشرے میں سرایت کر کے اس کا حلیہ بگاڑتے جا رہے ہیں۔