اب کیا…؟؟
ہر دن ایک نیا ہیجان، نئی شہہ سرخی اور وہی پرانا سوال کہ اب کیا …ایک بات تو واضح ہے کہ پاکستان کا سیاسی ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار ہے۔ ایم کیو ایم میں ہونے والی دھڑے بندیوں نے اسے پہلے مہاجر سے متحدہ اور اب منتشر قومی موومنٹ بنا دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا نیا مطلب مسلم لیگ (نا اہل) سمجھ میں آیا ہے۔ تاہم لودھراں کے ضمنی انتخاب نے یہ ثابت کیا ہے کہ پنجاب کی انتخابی مہم میں قیمے والے نان کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے جبکہ ووٹرز ابھی تک اس نظریے کے قائل نظر آتے ہیں کہ ’’اگر پارٹی لیڈرز کھاتے ہیں تو لگاتے بھی تو ہیں۔‘‘ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے لیے بھی حالات کچھ سازگار نہیں نظر آتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے خلاف زیر سماعت مقدمات کے فیصلے ان کے سیاسی مستقبل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اگر کسی عام پاکستانی شہری سے یہ پوچھا جائے کہ نواز شریف کے بعد شہباز شریف، آصف زرداری اور عمران خان بھی تاحیات نا اہل ہو کر سیاسی منظر سے غائب ہو گئے تو کیا ہوگا؟ تو اس سوال کا سادہ سا جواب یہی ہو گا کہ ملک کی تمام بڑی جماعتیں دھڑوں میں تقسیم ہو جائیں گی۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں دھڑے بندی شروع ہو چکی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ رحمن بھولا، اجمل پہاڑی، عذیر بلوچ کے بعد اب رائو انوار اور عابد باکسر جیسے کردار سامنے آ رہے ہیں جن کے ا عتراضی بیانات بہت سے سیاسی رہنمائوں کو قتل و غارت گری جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کی بنا پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔ ماڈل ایان علی کا منی لانڈرنگ کا کیس ختم نہیں ہوا ہے بلکہ اس کیس کو غیر ضروری طور پر طول دے کر اسے ضمانت پر بیرون ملک بھجوایا گیا ہے۔ پاکستان سے ہونے والی بے مہابا منی لانڈرنگ ملک کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی واچ لسٹ میں ڈلوانے کا سبب بن رہی ہے۔ اگر پاکستان کے حکمراں طبقات نے اپنا وطیرہ نہ بدلا تو پاکستان کے عوام دولت مند طبقات کی بدعنوانیوں اور کالے دھن کی غیر قانونی ترسیل کی وجہ سے بلاوجہ پابندیوں کا شکار ہو جائیں گے۔ اگر پاکستان کی سیاست سے کالا دھن نکل گیا تو پھر دھونس، دھاندلی، اسلحہ اور بدمعاشی کے بل بوتے پر سیاست کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ انتخابی دنگل میں کالا دھن استعمال نہ ہو سکا تو بہت سی نئی اور چھوٹی جماعتوں کو اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات الیکشن کمیشن کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ اس وقت سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی کروڑوں روپے کی بولیاں لگنے کی خبریں الیکٹرانک میڈیا میں گردش کر رہی ہیں۔ اگر سینیٹ کے انتخابات میں حسب سابق اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کی خبریں عام ہوئیں تو پھر شاید سینیٹرز بھی عام شہریوں کی نظر میں عزت مآب نہ رہیں گے۔ اب یہ فیصلہ سیاسی قائدین کو
کرنا ہوگا کہ وہ جمہوری ایوانوں کا مستقبل کیسا چاہتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے حالات پر چراغ پا بھارتی ریٹائرڈ جنرل ٹی وی انٹرویوز اور لیکچرز میں گلگت بلتستان میں شیعہ سنی فسادات کی آگ بھڑکانے، سی پیک کے تجارتی روٹ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے شاہراہ قراقرم کے پلوں کو بموں سے اڑانے کی بات کر رہے ہیں۔ انہیں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کا ادراک ہے لہٰذا وہ گلگت بلتستان اور بلوچستان کو علیحدہ کرکے پاکستان کی جغرافیائی ساخت بدلنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں بلوچستان میں دہشت گردی جاری رہے گی اور گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ ہمارے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دشمن اپنی دشمنی سے باز نہیں آئیں گے اور امریکی حکومت ہر حال میں اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہے گی جبکہ پاکستان میں چین کا اثر و رسوخ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں پاکستان کے قریبی مراسم ہیں۔ ایران کے اپنے تحفظات ہیں اور افغانستان کے حالات کے اپنے اثرات ہیں۔
حالیہ برسوں میں پاکستان کی سرحدوں کے اندر اور اطراف میں جو کچھ ہوتا رہا ہے یا اب ہو رہا ہے اس کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو نئی سیاسی قیادت تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں جو قائدین سامنے آئے تھے یا لائے گئے تھے وہ اب ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ 1988ء سے 1999ء تک جس قسم کی سیاست کی گئی اس نے کسی بھی حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا اور بالآخر جنرل پرویز مشرف برسرقتدار آ گئے۔ 2003ء سے بننے والی ہر جمہوری حکومت نے مدت پوری کی ہے اور ہر طرح کی سیاسی کوششوں کے باوجود فوجی حکومت قائم کرنے سے گریز کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ تاہم اب سوال یہ ہے کہ 1988ء سے لے کر اب تک آنے والے جمہوری اور غیر جمہوری ادوار میں جو خامیاں پیدا ہوئی ہیں ان پر کیسے قابو پایا جائے گا؟ آج اگر پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر ہو گئے ہیں تو بیرونی قرضہ کا حجم 69.5 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ 1988ء میں ایک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر 18 روپے تھی جو اب گھٹ کر 110.5 روپے ہو گئی ہے۔ گزشتہ تیس برس کے دوران زندگی نسبتاً پر تعیش تو ہو گئی ہے لیکن سماجی اور اخلاقی اقدار کمزور پڑ گئی ہیں۔ ایک جانب جہاں لوگوں کے دینی رجحان میں اضافہ ہوا ہے تو وہیں ہر طرح کے جرائم، رشوت خوری اور بدعنوانی بھی بڑھ گئی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں نے تعلیم اور علاج کی سہولتیں عام تو کر دی ہیں لیکن سرکاری اسکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں کی بدحالی کی وجہ سے معیاری تعلیم اور علاج عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہو گئے ہیں۔ آبادی کے ساتھ ساتھ بیمار اور ناخواندہ افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ گزشتہ تیس برس کے دوران آب گاہوں، جنگلات اور جنگلی حیات کو نقصان پہنچا ہے۔ زمینی، فضائی اور پانی کی آلودگی حد سے تجاوز کر گئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ سیاست، قیادت، تجارت اور صحافت سے لے کر پیری فقیری تک میں دو نمبری سرائیت کر چکی ہے۔ ایسے حالات میں اگر نئی حکومت نے کام کر لیا تو ٹھیک ہے ورنہ خدشہ یہ ہے کہ پاکستان کا حال بھی کسی غریب افریقی ملک جیسا ہی ہو جائے گا۔