میرے خیال میں ضرب عضب آپریشن کی کامیابی اور چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے بعد تیسری بڑی خوش آئند خبر قطر سے سالانہ ایک کھرب روپے کی ایل این جی خریداری کے پندرہ سالہ معاہدے کو قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ یہ معاہدہ پاکستان کے توانائی کے شعبے میں ایک انقلاب رونما کریگا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف بلاشبہ مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے امیر قطر تمیم بن حمد الثانی کیساتھ اس معاہدے پر دستخط کرکے ملک کے بہترین مستقبل کیلئے ایک اور سنگ بنیاد رکھ دیا۔ توانائی کی دستیابی کے حوالے سے گذشتہ دو دہائیاں خاصی پریشان کن رہی ہیں لیکن یہ اطمینان بخش بات ہے کہ گذشتہ کچھ عرصہ سے صورتحال بتدریج بہتر ہورہی ہے۔ ملک میں توانائی کی پیداوار کے نئے منصوبے لگ رہے ہیں جو 2018ء تک مکمل ہوکر پیداوار شروع کردینگے جبکہ قطر سے ایل این جی کی خریداری کیلئے پندرہ سال کا معاہدہ ایک بہت بڑا قدم ہے جو چین پاکستان اقتصادی راہداری کی طرح ایک گیم چینجر ثابت ہوگا۔ اس درآمد شدہ ایل این جی کے ذریعے پاور سیکٹر کو تقویت ملے گی، دو ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا ہوگی جس سے صنعتوں کا پہیہ مزید تیزی سے چلے گااور دم توڑتی سی این جی انڈسٹری کی بحالی میں بھی مدد ملے گی۔ایل این جی درآمد معاہدہ توانائی کے بحران کے حل میں حکومت کی سنجیدگی کا ثبوت ہے اور صنعتکار و تاجر برادری ان کوششوں کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت تمام ممکن وسائل کے ذریعے زیادہ سے زیادہ توانائی حاصل کرنے کے مزید منصوبے شروع کرے کیونکہ مقامی وسائل سے اس قدر بجلی پیدا کی جاسکتی ہے کہ نہ صرف ہم اپنی مقامی ضروریات پوری کریں بلکہ اسے دیگر ممالک کو برآمد بھی کرسکیں، چونکہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ توانائی کی طلب بھی بڑھتی جارہی ہے لہذا ہمیں اس تناسب سے نہیں بلکہ ضروریات سے زیادہ بجلی پیدا کرنا ہوگی تاکہ ویسے بحران سے بچا جاسکے جس نے ماضی میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کو بْری طرح متاثر کیا۔ دنیا بھر میں توانائی کی پیداوار کیلئے روایتی ذرائع پر انحصار اب کم ہوتا جارہا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں واضح کمی کی بڑی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مغربی دنیا نے تیل سے بجلی پیدا کرنا قریب قریب بند کردیا ہے جبکہ پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے جو وافر تیل پیدا کرنیوالے ممالک کی صف میں شامل نہ ہونے کے باوجودتیل سے بجلی بنائے جارہا ہے۔ ہم مزید ایسی شاہ خرچیوں کے متحمل نہیں ہوسکتے لہذا ہمیں تمام تر توجہ ہائیڈل اور توانائی کے متبادل ذرائع پر مرکوز کرنا ہوگی۔ پاکستان اُن خوش نصیب ممالک میں شامل ہے جہاں کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ اسکے باوجود پاکستان میں کوئلے سے صرف ایک فیصد بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں کوئلہ سب سے زیادہ استعمال ہونیوالا ایندھن بنتا جارہا ہے، عالمی سطح پر ابتدائی توانائی کی پیداوار میں اسکا حصہ 26%اور بجلی کی پیداوارمیں حصہ 40%ہے۔ پاکستان کے بڑے ذخائر سندھ، خاص طور پر تھر کے علاقے میں موجود ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کیمطابق یہاں 175.5ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ اسکے علاوہ سونڈا اور لکھڑ کے مقامات پر تقریباً 7ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ ان ذخائر میں 300سال کیلئے ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے لہذا اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پاکستان کو توانائی کے بحران سے نکلنے کیلئے چین کی ہائیڈرو پاور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، چین چھوٹے اور درمیانے درجے کے ہائیڈرو پاور پلانٹس کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی رکھتا ہے جس سے پاکستان کو بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے چالیس میٹر گہری سرنگ کھودی جاتی ہے اور اس سرنگ کے ذریعے ٹربائن پر پانی انڈیلنے کے عمل سے 2میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں ہوا اور سورج کے ذریعے وافر بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اگرچہ ماضی میں انہیں بہت بْری طرح نظر انداز کیا گیا لیکن یہ بات اطمینان بخش ہے کہ موجودہ حکومت بالخصوص وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اس جانب خاص توجہ دے رہے ہیں اور پنجاب میں شمسی توانائی کے منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے لیکن توانائی کے متبادل ذرائع پر کام صرف پنجاب تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ دیگر صوبوں ، بالخصوص صوبہ سندھ کی حکومت کو زیادہ سے زیادہ منصوبے شروع اور ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرنے چاہئیں۔ پاکستان کو کالاباغ ڈیم سمیت بڑے ڈیموں کی بہت شِدت سے ضرورت ہے۔ کالاباغ ڈیم سمیت تمام بڑے آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں کیونکہ قومی مفادات کے منصوبوں پر کام موخر ہونا کسی طور بھی درست نہیں۔ کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنیوالوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں لہذا حکومت قومی مفادات کو انکے ہاتھوں یرغمال نہ بننے دے کیونکہ یہ کالاباغ ڈیم کی مخالفت اپنے ذاتی مفادات کیلئے کررہے ہیں۔ کالاباغ ڈیم بننے سے وافر بجلی پیدا ہوگی جس سے توانائی کے روایتی نظام پر بوجھ کم ہوگا ، سیلابوں کی روک تھام کی جاسکے گی اور تمام موسموں میں زرعی شعبے کیلئے وافر پانی میسر آئیگا۔ معاشی معاملات ، بالخصوص توانائی کے شعبے کی بہتری کیلئے حکومت جس سنجیدگی سے کام کررہی ہے اْسکے پیش نظر ہم سب امید کرسکتے ہیں کہ نہ صرف پائپ لائن میں موجودہ منصوبے جلد از جلد مکمل ہوکر قوم کا کونہ کونہ جگمگائیں گے بلکہ کالاباغ ڈیم کے سلسلے میں بھی قوم کو جلد ہی کوئی خوشخبری ملے گی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024