16دسمبرپاکستان کی تاریخ کا ایسا سیاہ ترین دن ہے کہ جس کے زخم کو ہر سال تازہ کر دیا جاتا ہے ۔ملک کے اندھر ہونے والی تقریبات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری قوم اس واقعہ پر بہت شرمندہ ہے اور آنے والے وقت میں اس سے سبق حاصل کرنا چاہتی ہے۔ملک پاکستان کو جو نقصان ہوا ہے اس پر بھی دل کی گہرائی اور گیرائی سے ندامت محسوس کررہی ہے ۔درحقیقت یہ سب کچھ خود فریبی ہے جس میں ہماری سیاسی جماعتیں اوردیگر ملکی ادارے برابر کے شریک ہیں ۔ انتخابی مہم جو کہ یکم جنوری 1970کو شروع ہوئی تھی، سوا گیارہ ماہ چلتی رہی جو اپنی جگہ ایک ریکارڈ تھی۔ اس میں شیخ مجیب نے ’’چھ نکات‘‘ اور بھٹو نے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعروں کے ساتھ حصہ لیا۔ مسٹر بھٹو نے پورا سال چھ نکات کی کوئی مخالفت نہ کی جبکہ مجیب کی عوامی لیگ نے انہی نکات کی بنیاد پر انتخابی مہم چلائی۔
7 دسمبر 1970ء کو قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے جس کی 313 نشستوں میں سے 300 پر چنائو ہوا تھا۔ باقی 13نشستیں خواتین کیلئے مخصوص کی گئی تھیں۔ 300 قابل انتخاب نشستوں میں سے 162 مشرقی پاکستان اور 138 مغربی پاکستان کی تھیں۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے 160 نشستیں جیت کر قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی جبکہ باقی دو نشستوں میں سے ایک پر قومی جمہوری محاذ کے جناب نور الامین اور دوسری پر اقلیتی بدھ رہنما (چکما قبیلے کے سردار) راجہ تری دیورائے منتخب ہوئے۔ پی پی پی کو مغربی پاکستان سے 81 نشستیں حاصل ہوئیں جن میں بھاری اکثریت یعنی 63 نشستیں پنجاب سے تھیں کیونکہ پنجابی و کشمیری عوام کی اکثریت بھٹو کے کھوکھلے نعروں ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ اور ’’ہم کشمیر کیلئے ایک ہزار سال لڑیں گے‘‘ پر مر مٹی تھی (اب بھٹو کی وراثت پر قابض زرداری پارٹی کو یاد ہی نہیں کہ بھٹو نے آزادی کشمیر کا نعرہ بھی لگایا تھا اور یہ لوگ کشمیر اور پاکستان کے دشمن بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کیلئے بے چین ہوتے رہے۔ باقی تین صوبوں سے پی پی پی کی جیتی ہوئی نشستیں یوں تھیں: سندھ (30 میں سے 17)، صوبہ سرحد سے ایک اور بلوچستان کی کل 4 نشستوں میں سے صفر۔
یوں انتخابات 1970نے بھٹو کو اپوزیشن لیڈر کا مقام دیا تھا جو انہیں کسی طور گوارا نہ تھا۔ تقریباً سال بھر کی انتخابی مہم میں انہوں نے مجیب کے چھ نکات کی مخالفت کا تکلف نہ کیا مگر اب انتخابات کے بعد اچانک انکی مخالفت شروع کر دی۔ اگر چھ نکات ایسے ہی برے تھے تو انتخابات سے پہلے وہ جنرل یحییٰ سے کہہ کر مجیب کو چھ نکات کے پرچار سے روک سکتے تھے مگر انتخابات کے بعد انکی مخالفت سیاسی مفاد تھی۔ اوائل جنوری 1971ء میں جنرل یحییٰ ڈھاکہ ایئر پورٹ پر شیخ مجیب کو ملک کا آئندہ وزیراعظم قرار دے چکے تھے جبکہ شیخ مجیب نے ان نکات کو صرف انتخابات جیتنے کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا تھا اور وہ مغربی پاکستان کے دیگر لیڈروں سے کہہ چکے تھے کہ چھ نکات کوئی حدیث نہیں، اسمبلی میں ان پر بات ہو گی۔ لیکن بھٹو صاحب نے وسط جنوری 1971ء میں پی پی پی کے وفد کے ہمراہ ڈھاکہ جا کر مجیب کیساتھ سودا بازی کی کوشش کی۔ کشتی میں دونوں لیڈروں نے بوڑھی گنگا کی سیر بھی کی اور بھٹو نے ساڑھے پانچ نکات تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا مگر پھر آدھے نکتے پر بات اٹک گئی۔ اگر بھٹو مخلص ہوتے تو وہ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہونے دیتے تو اس آدھ نکتے کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا لیکن دراصل وہ مرکزی سطح پر مجیب سے اقتدار میں شرکت کی ضمانت چاہتے تھے، یہ کہ انہیں نائب وزیراعظم یا صدر مملکت کا منصب دیا جائے لیکن مجیب نے ایسی یقین دہانی کرانے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ جو شخص اپنے ’’ڈیڈی‘‘ کا وفادار نہیں رہا وہ ناقابل اعتبار ہے (جناب ایس ایم ظفر اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے کانوں سے مسٹر بھٹو کو جنرل ایوب خاں کو ڈیڈی کہتے سنا تھا)
مغربی پاکستان سے دیگر سیاسی جماعتوں کی قومی اسمبلی میں نمائندگی یوں تھی۔ پاکستان مسلم لیگ دولتانہ گروپ (14)، پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ (2)، کنونشن مسلم لیگ (2)، نیشنل عوامی پارٹی NAP (9)، جمعیت العلمائے پاکستان (7)، جمعیت علمائے اسلام (7)، جماعت اسلامی (4)۔ مسلم لیگ کے میاں ممتاز دولتانہ اور نیپ (اے این پی کی پیشرو) کے لیڈر خان عبدالولی خان سے شیخ مجیب کی گاڑھی چھنتی تھی، وہ ان دونوں کے ساتھ آسانی سے مخلوط حکومت بنا سکتے تھے جس میں جمعیت العلمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام بھی شریک ہو سکتی تھیں۔ ان کی معاونت سے آئین سازی کا مرحلہ بخوبی طے ہو سکتا تھا اور ملکی سلامتی کی حدود کے اندر رہ کر چھ نکات کے معاملے میں بنگالیوں کو مطمئن کیا جا سکتا تھا مگر بھٹو تو حصول اقتدار کیلئے پانی کی مچھلی بنے ہوئے تھے۔ جب انہوں نے فوری اقتدار کی لیلیٰ ہاتھ سے جاتے دیکھی تو وہ سب کچھ ڈھا دینے پر تل گئے۔ (مسٹر بھٹو نے یحییٰ خان کو لاڑکانہ بلا کر کیا پلان بنایا، کس طرح مینار پاکستان کے سائے تلے ڈھاکہ جانیوالے ارکان اسمبلی کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی اور پھر بنگالیوں کو ’’بونگلے‘‘ کہہ کر انہیں فوجی آپریشن سے کچل دینے کی روش اختیار کی۔
تاریخ ہمیںیہ سبق دیتی ہے کہ سقوط ڈھاکہ پر مگرمچھ کے آنسو بہانے کی بجائے ہم تلخ حقائق کا جائرہ لیں جن کے سبب ہمیں مشرقی پاکستان میں ذلت و رسوائی کا سامنا ہوا۔ خرابیاں تو پاکستان بننے کے بعد ہی واضح ہو گئی تھیں جن کا احاطہ کرنا تفصیل طلب ہے اس لئے اس وعدہ خلافی پر مشرقی پاکستان میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور احتجاج کو دبانے کیلئے 25 مارچ کو پورے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا۔ ہماری مغربی پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت نے سکھ کا سانس لیا کہ ’’خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا۔‘‘ جبکہ انہیں بخوبی معلوم تھا کہ برا وقت آنیوالا ہے لیکن پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو آج کس جرم کی سزا دی جارہی ہے
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے راہنما مولانا عبدالقادر ملا کو صرف اس جرم میں پھانسی دیدی گئی کہ انہوں نے 1971 ء میں مشرقی پاکستان میں جب ہماری فوج وہاں حکومت کی رٹ قائم کرنے کیلئے جنگ لڑ رہی تھی تو جماعت اسلامی نے البدر کے نام سے اپنی عسکری تنظیم بنائی جس نے پاک فوج کے شانہ بشانہ پاکستان کی جنگ لڑتے ہوئے بڑی قربانیاں دیں۔ مولانا عبدالقادر ملا پر الزام یہ لگایا گیا کہ البدر کا حصہ ہوتے ہوئے‘ جن کی عمر اس وقت 21 سال تھی‘ انہوں نے بنگالیوں پر ظلم کیا‘ انہیں قتل کیا اور خواتین کی بے حرمتی کی۔ ان الزامات کی بنیاد پر انہیں اور دوسرے جماعت اسلامی کے اہم قائدین کو اس عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جسے کینگرو کورٹ کا نام دیا جائے تو کوئی اچنبھے کی بات نہ ہوگی۔اس کینگرو کورٹ کو جنگی جرائم کیخلاف انٹرنیشنل ٹرائل کورٹ کا نام دیا گیا جبکہ اس عدالت میں تینوں جج بنگالی تھے اور جس طرح شہادتیں پیش کی گئیں اور کئی سالوں تک استغاثہ ہی کے ہاتھوں ’’جنگی مجرموں‘‘ کیخلاف کاروائی ہوتی رہی اور پھانسی کی سزائیں دی گئیں۔ اس ظالمانہ فیصلے کیخلاف حکومت پاکستان نے احتجاج تو در کنار بلکہ ہلکا سا اعتراض کا ایک لفظ بھی نہ بولا‘ بلکہ یہ کہہ کر زبان کو تالا لگا لیا کہ ’’یہ بنگلہ دیش کا اندرونی مسئلہ ہے۔‘‘
یہ بنگالیوںکا اندرونی معاملہ نہیں ہے بلکہ نظریہ پاکستان کے تقدس اور عزت کا معاملہ ہے۔ پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے۔ اسلئے کہ ہمارا مشرقی پاکستان کا علاقہ جہاں مسلم لیگ ایک جماعت کی حیثیت سے معرض وجود میں آئی تھی اور جہاں کے مسلمانوں نے یک زبان ہو کر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا‘ آج ہم ان سے اس قدر بیگانہ ہو چکے ہیں کہ ہم اپنے ہم وطنوں کی ان قربانیوں کو بھی بھلا بیٹھے ہیں کہ جنہوں نے ہماری فوج کے ساتھ مل کر ملک کی بقا کی جنگ لڑی‘ قربانیاں دیں ‘ جس طرح ہماری فوجی جوان اور آفیسر اس جنگ میں شہید ہوئے اور ان میں اکثر وہاں گمنام قبروں میں دفن ہیں۔ ہماری حکومت نے انکے جسد خاکی کو پاکستان لانے کی ایک موہوم سی کوشش بھی نہیں کی جبکہ ویتنام کی جنگ ختم ہونے کے نصف صدی گزرنے کے بعد بھی امریکہ اپنے گمنام سپاہیوں کو تلاش کرنے کا کیلئے سرگرم ہے اس لئے کہ اس قوم کو حب الوطنی کے معنی معلوم ہیں۔
جماعت اسلامی کے بزرگ رہنمائوں کو بھارتی اشارے پر اسلام اور پاکستان سے محبت کی سزا دی جا رہی ہے۔ بنگلہ دیشی عوام حسینہ واجد حکومت کی اسلام اور پاکستان دشمن پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔عبدالقادر کا قصور کیا تھا‘ پاکستان سے محبت‘ وہ پاکستاں کی تقسیم کامخالف تھا۔ اس محب وطن پاکستانی کا خیال تھا کہ بھارت سے ساز باز کر کے پاکستان کو توڑنے کی سازش کرنے والے شیخ مجیب الرحمن کی اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس باہمت نوجوان نے پاکستان‘ نظریہ پاکستان اوراسلام کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان سے محبت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والا 65 سالہ بوڑھا شخص آج پاکستانیوں کی نظر میں اجنبی ہے‘ خود پاکستانی
میڈیا اسے جنگی جرائم کا مرتکب سمجھ رہا ہے۔ وہ شخص جو دین و وطن کی خاطر پھانسی کے پھندے پر جھول گیا اسے مجرم قرار دیا جا رہا ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024