معدنی خزانے
چشمِ بد دور ہمارا پیارا ملک، جس کی محبت میں ہماری کُل آبادی بُری طرح گرفتار ہے،معدنیاتی خزانوں سے مالامال ہے۔دنیا کا کوئی اور ملک جو ہمارے پیارے ملک کے رقبے کے برابر ہو ،اس قدر امیر ہر گز نہیں ہے۔ رہی ہمارے لوگوں کی اپنے ملک سے محبت تو وہ بالکل اُسی طرح سے ہے جیسے ہماری فلمی ہیروئنیں فلمی ہیرو کی محبت میں پاگلوں کی طرح گرفتار ہوتی ہیں۔ جب شاٹ شروع ہوتا ہے تو ہیرو سے محتاط انداز میں بانہوں کو دیوارِ چین بنا کر’آ گلے نال لگ جا ٹھا کرکے‘ گاتی ہیں اور جیسے ہی ڈائریکٹر ’کٹ‘ چیختا ہے اُسی وقت میک اپ مین کو ڈھونڈنے لگتی ہیںیا پھر ہم پاکستانی اور ہندوستانی پیدائشی مسلمان ویسے تو کلمہ گو ہیں مگر اللہ تعالیٰ اوررسولِ اکرم ؐکے تقریباً ہر حکم کی نفی کرتے ہیں ا ور اسے اہانت اللہ اور اہانتِ رسول ؐ نہیں گردانتے بلکہ نا فرمانی کے کھاتے میں ڈال کر آنکھیں موند لیتے ہیں مگر جیسے ہی سُنتے ہیں کہ کسی یوروپین یا دیسی غیر مسلم نے اہانتِ رسول ؐکی ہے تو یکایک ان میں عشق کا ایک خفتہ جذبہ انگڑائی لیتا ہے اور سیخ پا ہو کر اپنے ہی ملک میں فساد برپا کر دیتے ہیں۔ املاک اور روزگار کو نقصان پہنچاتے ہیں اور قوم و ملک کا وقت برباد کرتے ہیں۔تو ذکر چھیڑا تھا معدنی خزانوں کا کہ ہمارے پیارے ملک میں جہاں کچرا کُوڑا، ٹریفک، مہنگائی وغیرہ پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی وہیں ملک کے معدنی خزانوں کو تو تقریباً بالکل ہی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یہی رونا رونے اور حکومت کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹر انجینئرجمیل احمد خان نے پاکستان اکیڈمی آف انجینئرنگ کے زیرِ اہتمام ایک سمپوزیم کا انعقاد کیا۔موضوع تھا "Our Mineral Resourses - The Most Neglected Sector" اور اپنے اپنے شعبوں کے بہت سے وقیع حضرات مقرر اور مفسّر تھے۔انتہائی اہم بات جو پاکستان اکیڈمی آف انجینئرنگ کے اس گیارہویں سمپوزیم میں بھی نظر آئی وہ تھی وقت کی پابندی۔ٹھیک دس بجے اور پروگرام کے عین مطابق تلاوتِ کلامِ پاک ہوئی۔ٹھیک دس بج کر پانچ منٹ پر ڈاکٹر انجینئرجمیل احمد خان چیئرمین اکیڈمی نے اپنے خطبۂ استقبالیہ کا آغاز کیا۔انہوں نے بتایا کہ یہ موضوع اکیڈمی آف انجینئرنگ کی کونسل نے چنا اور یہ سوچ کر چنا کہ معدنی ذخائر کی پاکستان میں جو بفضلِ تعالیٰ بہتات ہے جس سے ہم اپنے ملک کے تمام دلدرددور کر سکتے ہیں اُس کی طرف اربابِ اختیار و اقتدار کی توجہ مبذول کرائی جائے۔انہوں نے فرمایا کتنے افسوس کی بات ہے کہ اکنامک سروے آف پاکستان کی اس سال کی رپورٹ میں معدنی ذخائر کی تلاش کا کوئی ذکر تک نہیں ہے۔تاہم سال ۲۰۱۸ کی مائننگ اور کان کنی سیکٹرکی 3.04% کی پیداوار کا ذکر ضرور ہے مگر یہ جی ڈی پی کی بڑہت کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔انہوں نے بہت دلچسپ بات بتائی کہ اسمارٹ فون کے بنانے میں ساٹھ قسم کی معدنیات کا استعمال ہوتا ہے۔اس سے معدنیات کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔پاکستان کو بہت سے دوسرے ممالک سے معدنیات کے ذخیروں کی وجہ سے کافی فوقیت حاصل ہے ۔فرمایا بلوچستان ہمارے ملک کے کُل رقبے کا 42% ہے اور قومی معدنیاتی ذخیروں کا بجا طور پربادشاہ کہلا سکتا ہے تو صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو چاہئیے بڑی تعداد اور مقدار میں ان خزانوں کی تلاش کے لیے منصوبہ بندی کریں۔انہوں نے سمندری پانی سے یورینیم کے حصول کی طرف بھی توجہ دلائی کہ پاور پلانٹس کے لیے اس کی اشد ضرورت ہے۔ممبر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن طارق محمودنے اُن وجوہات پر روشنی ڈالی جو پاکستان کی معدنی دولت سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کی راہ میں روک بنی ہوئی ہیں۔ان میں سب سے بڑی وجہ ہمارے پاس تربیت یافتہ افرادی قوت کی شدید کمی ہے پھر یہ کہ کان کنی اور بعد کی استعمال ہونے والی جدیدٹیکنالوجی کی بھی کمی ہے۔ ظاہر ہے اس مسئلے کا حل بھی حکومتِ وقت کے پاس ہے۔ ایسی تربیت اور ٹیکنالوجی بغیر حکومتی پیش رفت کے ممکن نہیں۔اس کے بعد اظہر خان نے کلیدی خطاب کیا ۔ اظہر خان کان کنی وغیرہ کے ماہر ہیں اور منسٹری آف انرجی(پیٹرولیم ڈویژن) کے سابق ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ معدنیات کے بارے میں قانون سازی اور انتظامی اتھارٹی صوبائی حکومتوں کے پاس ہے۔نیز معدنیاتی شعبے کے بارے میں قانونی اور انتظامی معاملات، معدنیات کی تلاش میں ترقیاتی منصوبے اورکان کنی کے لیے حفاظتی اقدامات بھی صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومتوں کی فہرست میں یہ کام بہت حد تک پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ شاید صوبائی حکومتیں کسی معجزے کے انتظار میں ہیں۔ اُن کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ دنیاوی اور مملکتی شعبوں میں معجزے نہیں کام کام اور کام ہی کام آتے ہیں۔ڈاکٹر فضائل صدیقی نے، جو ایک کنسلٹنٹ جیالوجسٹ ہیں ، کان کنی اور معدنیاتی خزانوں کی تلاش میں دنیا میں استعمال ہونے والی جدید ٹیکنالوجی پر روشنی ڈالی۔ڈاکٹر خان گُل جدون نے، جو بلوچستان یونیورسٹی آف اطلاعات ٹیکنالوجی انجینئرنگ اور انتظامی علوم، کوئٹہ میں پروفیسر ہیں ، چھوٹے پیمانے پر کان کنی میں صحت اور حفاظتی اقدامات کے مسائل پر کافی خوفناک روشنی ڈالی۔ اس شعبے میں بھی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی کوتاہیاں دلخراش تھیں۔ مجیب الرحمٰن،ڈائریکٹر جنرل اٹامک انرجی کمیشن نے پاکستان میں ریڈیو ایکٹو معدنیات کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی۔پتہ چلا ماشاء اللہ پاکستان ان معدنیات میں بھی کافی رئیس واقع ہُوا ہے کمی بس وہیں ہے جہاں حکومتیں ذمہ دار ہیں۔ آخر میں الکاظم منصور نے ، جو ایک معروف جیالوجسٹ ہیں،بلوچستان میں چل رہے بڑے بڑے پراجیکٹس پر ،جن میں مشہور و معروف ریکو ڈِک پراجیکٹ بھی شامل ہے،کافی بصیرت افروز گفتگو کی۔انہوں نے بتایا کہ ریکو ڈک کا مطلب بلوچوں کی زبان میں ’’سیاہ پہاڑ ‘‘ ہے۔یہاں دنیا کا پانچواں بڑا تانبے اور سونے کا ذخیرہ ہے۔ خزانے کی مقدار تقریباً ساٹھ لاکھ ٹن ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ کینیڈا اورچلی کی اینٹوفاگاسٹا معدنیات کمپنیاں ریکو ڈِک پر تیزی سے کام کر رہی ہیں۔مگر چند مسائل نے پراجیکٹ کو جیسے تھان پر باندھ دیا ہے۔سندھ کی کانوں کے چیف انسپکٹر سید ارشاد احمد جیلانی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔