میاں افتخار افضل ‘ یادیں ‘ باتیں
صبح کے تقریباً دس بج رہے تھے۔ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون اٹھایا تو دوسری جانب سے ایک صاحب نے کہا’’ہیلو - میاں افتخار افضل صاحب سے بات ہوسکتی ہے؟‘‘ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے میرے سینے میں خنجر گھونپ دیا ہو۔’’نہیں جی -انکا تو انتقال ہوگیا ہے‘‘۔ میں اپنے جذبات پر قابو پاکر آہستہ سے بولی۔ یہ روزنامہ نوائے وقت کے الطاف مجاہد تھے اسی روز میرے والد کا لکھاہوا مضمون نوائے وقت میں شائع ہوا تھا۔ میرے والد کے انتقال کی خبر سن کر وہ بھی بہت رنجیدہ ہوگئے اورکہنے لگے کہ ’’میں کبھی ان سے ملا نہیں البتہ کئی مرتبہ ان سے فون پر بات ہوئی تھی لیکن پھر بھی میں انکی گرجدار آواز ‘طرز گفتگو اوراسلام وپاکستان سے محبت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔‘‘ انہوں نے پھر مجھے میرے والد کے بارے میں لکھنے کی دعوت دی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کہاں سے شروع کروں‘کتنے دن میں یہ ہی سوچتی رہی کہ اس دریا کو کوزے میں کیسے بند کروں۔ پھر تیس نومبر کو ڈاکٹر محمد اجمل نیازی صاحب کا اپنی بے انتہا شفیق والدہ کے بارے میں کالم نظر سے گزرا اورذہن میں خیال آیا کہ جب نیازی صاحب اپنی والدہ کے بارے میں لکھ پائے ہیں تو کیوں نہ میں بھی یہ جسارت کرنے کی کوشش کروں۔میرے والد24اپریل 1934 کو فیصل آباد میں ایک نہایت معزز اورتعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم فیصل آباد اورکراچی میں حاصل کرنے کے بعد انہوں نے امریکہ سے بی ایس سی اورپھرشادی کے بعد انگلینڈ سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان واپس آئے تو اپنے والد محترم میاں محمد افضل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی (PCCC) جوائن کرلی۔ انکے والد کو ’’فادر آف پاکستان کاٹن‘‘ کا لقب دیاگیا تھا اورجلد ہی وہ بھی اپنے شعبہ میں ترقی کرتے ہوئے نائب صدرPCCC مقرر ہوگئے۔ اس دوران کئی مرتبہ UNO میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ 1977 میں یونیسکو نے انہیں کولمبو‘سری لنکا بھیجا تاکہ وہاں کی ایک یونیورسٹی میں ٹیکسٹائل کاشعبہ قائم کرسکیں۔1994 میں PCCCسے ریٹائرڈ ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی باوجود اس کے کہ ہائی بلڈ پریشر اورشوگر میں مبتلاہوگئے۔ کینسر جیسے موذی مرض سے جنگ لڑ ی اوراللہ کے کرم سے اسے شکست دی اور2004 میں دل کا بائی پاس ہوا۔ بہت بھرپور زندگی گزاری ۔ لوگ انہیں علم اوریادداشت کا انسائیکلو پیڈیا کہاکرتے تھے۔میرے والد ایک نہایت ہی اعلیٰ انسانی ‘محبت کرنے والے شوہر‘ بے انتہا شفیق باپ اور سب سے بڑھ کر پکے مسلمان اورعاشق رسول ﷺ تھے۔ اپنے اصولوں پر انہوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔2005میں جنرل مشرف کے دور حکومت میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ PCCC کی عظیم الشان عمارت امریکہ کو بیچ دی جائے تاکہ وہ وہاں پر اپنا قونصل خانہ بناسکیں۔ میرے والد نے اس کے خلاف بہت سے خطوط مختلف اخبارات میںشائع کرائے لیکن حکومت وقت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی اور وہی ہوا جس کا میرے والد کوڈر تھا۔ PCCCکوجوکہ اس عمارت میںپچاس سال سے مقیم تھی بلڈنگ خالی کرنے کا نوٹس دے دیا گیا اورپھراسے گرادیا گیا سب سے زیادہ قلق میرے والدکو اس بات کا ہوا کہ PCCC کے احاطے میں قائم مسجد کوبھی بے دردی سے شہید کردیا گیا۔ اس بات کا دکھ میرے والد کو آخر تک رہا۔ ہمیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ٖPCCC سے انکی الفت اتنی ہی تھی جتنی کہ کسی شخص کو اپنے ذاتی‘جدی پشتی گھر سے ہوتی ہے اورہر کچھ دنوں بعد وہ کاغذ پینسل پکڑ کربیٹھ جاتے اور اس ظلم کے خلاف اپنے جذبات کا اظہارکرتے۔27اکتوبرکا سورج معمول کے مطابق طلوع ہوا‘ میرے والد نے صبح ناشتہ کیا اورپھر حسب معمول قرآن شریف اورتسبیح پڑھنے بیٹھ گئے۔ جب پڑھ چکے تو اٹھ کر اپنے کمرے میں جانے لگے کہ اچانک کچھ سیکنڈ کیلئے بے ہوش ہوئے اورگر پڑے۔ انکے ماتھے پرگہری چوٹ لگی اورخود رواں ہوگیا۔ ہم فوراً انہیں آغا خان اسپتال لے گئے اس وقت تک وہ مکمل طورپر ہوش میں آچکے تھے۔ انکی عادت تھی کہ وہ جب بھی کہیں جاتے اپنی تسبیح ضرور ساتھ لے جاتے۔اس وقت بھی انکی تسبیح انکے ہاتھ میں تھی۔ ہسپتال پہنچنے پر سی ٹی اسکین سے معلوم ہوا کہ انہیں برین ہیمرج ہوگیا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ نیم بے ہوش ہوگئے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بدستور تسبیح پڑھتے رہے۔ تسبیح انکے ناتواں ہاتھوں سے گرجاتی اوراسی نیم بے ہوشی کی حالت میں وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بسترکو ٹٹولتے ۔ میری والدہ انکی تسبیح انکے ہاتھ میں دے دیتیں تو وہ دوبارہ پڑھنا شروع کردیتے۔ اس موقع پر کسی کو بھی کسی بات کا جواب نہیں دے رہے تھے۔ یہ میرے مالک کے کرشمے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا اور یہ میرے والد کے ایمان کا عروج تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کام کا عادی ہوتا ہے اورجس طرح سے اس نے اپنی زندگی گزاری ہوتی ہے آخری وقت وہ شخص انہی کاموں میں مشغول ہوجاتا ہے حتیٰ کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرجاتی ہے۔ کچھ گھنٹوں بعد میرے والد کوما میں چلے گئے اورتین دن کے بعد یعنی 31اکتوبر کی صبح نہ صرف ہم بلکہ پورا پاکستان ایک انمول ہیرے سے محروم ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔میری اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے وہ انکی قبر کو کشادہ فرمائے اوراس میں جنت کی کھڑکی کھول دیں اور ہمیں صبر جمیل عطا فرمائیں۔ (آمین ثم آمین)
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا