بھارت میں عام انتخابات کا مرحلہ وار آغاز ہو چکا ہے، اور حال ہی میں بھار ت کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں جس میں زبردست شکست کے بعد یہ سوال شدت سے پوچھا جا رہا ہے کہ آیا حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(BJP) کا زوال شروع ہوچکا ہے اور وزیر اعظم نریندرکی حکومت ختم ہو رہی ہے؟ اسی کے ساتھ حکمران جماعت بی جے پی میں ایسی چہ مگوئیاں بھی شروع ہوگئی ہیں کہ آیا اس شکست کی اصولی ذمہ داری وزیر اعظم نریندر مود ی اور پارٹی کے قومی صدر امیت شاہ کو لینا چاہیے کیوں کہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک ہوئے تمام ریاستی انتخابات میں پارٹی کی کامیابی کا سہرا بھی انہی دونوں رہنماو¿ں کے سرباندھا جاتا رہا ہے۔11دسمبر کو پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ہندی خطے کی تین انتہائی اہم ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس اپنی حکومت بنانے جا رہی ہے۔ کانگریس نے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ سے بی جے پی اورمیزورم میں میزو نیشنل فرنٹ نے گزشتہ 10سال سے اقتدار پر قابض کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کر دیا ہے۔ تلنگانہ راشٹریہ سمیتی (ٹی آر ایس) تلنگانہ میں کسی کی مدد کے بغیر حکومت تشکیل د ینے کی پوزیشن میں ہے ۔40رکنی میزورم اسمبلی میں میزو نیشنل فرنٹ کو26،کانگریس کو 5، بی جے پی کو ایک اور دیگر کو 8سیٹیں ملیں۔119رکنی تلنگانہ اسمبلی میں ٹی آر ایس کو87،کانگریس کو 20، تلگو دیشم کو2 ، بی جے پی کو ایک سیٹ ملی۔90رکنی چھتیس گڑھ اسمبلی میں کانگریس کو 66، بی جے پی کو 16،جے سی سی (جے) نے4اور بی ایس پی نے 3سیٹیں جیتیں۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس کو 114 اوربی جے پی کو109 نشستیں ملی ہیں۔
راجستھان میں کانگریس نے90 اور بی جے پی نے73 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ تلنگانہ میں ٹی آرایس نے کانگریس کی زیرقیادت عظیم اتحاد کو شکست دی۔ ٹی آر ایس کو 87 نشستوں پر کامیابی ملی۔ کانگریس کی زیرقیادت پیپلز فرنٹ کو 22 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا ۔ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کو 7 نشستوں پر کامیابی ملی۔ بی جے پی کے دعووں کو بھی شدید دھچکا لگا ۔گزشتہ اسمبلی میں اس کے5 ارکان اسمبلی تھے تاہم اس مرتبہ بی جے پی کوشرمناک شکست اٹھانی پڑی۔بی جے پی کو صرف گوشہ محل کی ایک نشست پر اکتفا کرنا پڑا۔ راجہ سنگھ نے 20 ہزار ووٹوں کی اکثریت سے اپنے قریبی حریف ٹی آر ایس امیدوار پریم سنگھ راٹھور کو شکست دی۔
مسلم اکثریتی علاقوں میں جس طرح سے بی جے پی کو شکست ہوئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، یوں محسوس ہو رہا ہے کہ آئندہ بی جے پی کو اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے بہت سا وقت درکا ر ہوگا۔ مسلم اکثریتی علاقے عادل آباد ضلع کی 10 نشستوں میں ٹی آر ایس کو 8 پر کامیابی ملی۔ کریم نگر ضلع کی13 نشستوں میں ٹی آر ایس کو 11 نشستوں پر کامیابی ملی۔ میدک ضلع میں 10 نشستوں پر ٹی آر ایس کو 9 اور کانگریس کو سنگاریڈی اسمبلی حلقہ میں کامیابی ملی۔ گدوال اسمبلی حلقہ سے کانگریس کی سینئر لیڈر و سابق وزیر ڈی کے ارونا کو بھی شکست ہوئی۔ کانگریس کا گڑھ سمجھا جانے والا نلگنڈہ ضلع میں بھی ٹی آر ایس نے شاندار مظاہرہ کیا۔ کانگریس کے اہم لیڈروں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ نلگنڈہ کے ناگرجناساگر اسمبلی حلقہ سے سابق سی ایل پی لیڈر جانا ریڈی کو ٹی آر ایس امیدوار این نرسمہلو نے 9 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی۔ اسی ضلع سے پی سی سی صدر اتم کمار ریڈی کی اہلیہ پدماوتی ریڈی کو کوداڑ اسمبلی حلقہ سے شکست ہوئی۔ راہول گاندھی جس سے مسلم اقلیت کو اس بار خاصی اُمیدیں ہیں ، نے کہا ہے کہ وہ اقلیتوں کا خاص خیال رکھیں گے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عدلیہ،فوج اور میڈیا جیسے ملک کے اہم اداروں کی معتبریت بچانے کے لئے 2019کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی اقتدار سے بے دخلی یقینی بنائی جائے۔ اس کے لئے زبردست محنت کی جائے گی۔ بی جے پی کو اس کا مقام دکھا دیا جائے گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان ریاستوں میں بی جے پی وزراءاعلیٰ نے جو ترقیاتی کام شروع کئے تھے کانگریس انہیں پایہ تکمیل کو پہنچائے گی۔ اسمبلی انتخابات میں کانگریس 2 ریاستوں میں ہاری ہے لیکن 3 ریاستوں میں اسے کامیابی ملی ہے۔بی جے پی نے نوجوانوں کو روزگار دینے، بدعنوانی مٹانے اور کسانوں کے قرض معافی کا وعدہ کیا تھا لیکن اس نے وعدہ پورا نہیں کیا جس سے لوگ ان سے ناخوش تھے۔
ان نتائج کے برعکس 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو حاصل ہونے والی مجموعی طورپر 282 سیٹوں میں سے 62 اسے انہی تین ریاستوں سے ملی تھیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے راجستھان کی تمام 25 سیٹیں، چھتیس گڑھ کی گیارہ میں سے دس اور مدھیہ پردیش کی 29 میں سے 27 سیٹیں جیتی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کو جس طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس سے آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں اس کی دوبارہ کامیابی کے امکانات پر بڑے سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔بھارت میں چند ماہ بعد عام انتخابات ہونے والے ہیں اور ان اسمبلی انتخابات کو وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ”لٹمس ٹیسٹ“ کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے اور اس پیش رفت کو ’مودی برانڈ‘ کے لیے زبردست دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ بی جے پی کے سامنے چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ ’مودی برانڈ‘ کی چمک دمک کو کس طرح برقرار رکھے۔میرے خیال میں یہ مودی کی مسلم دشمنی کا شاخسانہ ہے کہ وہ اب وہ ناقابل تسخیر نہیں رہے۔ عوام کو اب یہ حقیقت سمجھ میں آ چکی ہے کہ مودی بھگوان نہیں ہیں اور انہیں بھی شکست دی جا سکتی ہے۔ عوام اب کسی خوف کے بغیر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور ماضی میں جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امیت شاہ تمام کامیابیوں کا سہرا اپنے سر لیتے رہے ہیں، اسی طرح اس شکست کی ذمے داری بھی انہیں قبول کرنا چاہیے۔یہ قبول کرنا چاہیے کہ اُن کی پاکستان مخالف اور مسلم مخالف پالیسیاں غلط تھیں، آج کے دور میں جب دنیا سمٹ رہی ہے تو اُن کی تنگ ذہنی کسی طور پر بھی کام نہ آسکی۔
اور دنیا کو یاد ہے کہ مودی حکومت کس طرح مسلمانوں پر مظالم ڈھاتی رہی ہے۔حالیہ دنوں میں مودی حکومت کی مسلم دشمنی کا۔ لب لباب یہ ہے کہ مودی حکومت کی مسلمانوں کے تعلق سے پالیسی کا نچوڑ یہ ہے کہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیاجائے۔ تب ہی تو اخلاق احمد کو گھر میں گھس کر مارا جاتا ہے تو کبھی پہلو خان کو راستے میں پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اُتار ا جاتا ہے تو کبھی لاو¿ڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان پر اعتراض ہوتا ہے۔ اور اب بقرعید میں قربانی روکنے کیلئے زیادہ تر ایسے جانوروں کی خرید و فروخت پر پابندی لگادی گئی ہے جو قربانی کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے کہ جب لوگ قربانی کیلئے بھینس نہیں خرید سکیں گے تو پھر بکرے کس قیمت میں ملیں گے۔؟ ظاہر ہے کہ اب بقرعیدکے موقع پر بکروں کے دام آسمان سے باتیں کریں گے۔ ان حالات میں بیچارے غریب مسلمان کیسے قربانی کریں گے۔ یعنی اب یہ حکم ہے کہ ہم تمہیں تمہارے مذہبی تہوار بھی آسانی سے منانے نہیں دیں گے۔
راقم مستقل یہ لکھتا رہا ہے کہ مودی حکومت کی مسلمانوں کے تعلق سے پالیسی یہ ہے کہ مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر غلام بنادیا جائے، جب کوئی قوم آزادی سے اپنے مذہب کے مطابق چل نہیں سکتی تو پھر اس قوم کو غلام نہیں تو اور کیا کہا جائے گا۔
بہرکیف اسمبلی انتخابات کے نتائج حکمران بی جے پی سے زیادہ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کے لیے تشویش کا موجب ہیں کیوں کہ ان دونوں رہنماو¿ں نے الیکشن کے دوران جتنا زور لگایا تھا اور جس طرح تمام حربے آزمائے تھے، اس انتخابی شکست کے بعد ان کی گرفت اتنی مضبوط نہیں رہے گی اور اگر پارٹی کا ناراض دھڑا سرگرم ہو گیا، تو ان دونوں رہنماو¿ں کی پریشانی مزید بڑھ جائے گی۔کیوں کہ ان نتائج نے مودی کی برتری کے لیے سنگین چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ اب ان کی زبان بدل جائے گی، لہجہ نرم ہو جائے گا اور وہ جارحانہ تقریروں کے بجائے موضوعات پر اپنی توجہ زیادہ مرکوز کریں گے۔اور ویسے بھی نریندر مودی کو اپنی سیاست پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور خامیوں کو دور کرنا چاہیے کیوں کہ یہی وقت کی آواز ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024