اردو کو جب انگریزوں نے سرکاری زبان بنایا
ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے انگریزوں نے پہلے برصغیر کے جنوبی علاقے مدر اس میں اپنے قدم جمائے۔پھر جنوبی علاقے سے پرتگال ،ہالینڈ اور فرانسیسیوں کو نکال باہر کرکے ان کے زیر تسلط تمام علاقوں پر قبضہ جما لیا۔اس کے بعد اپنی ریشہ دوانیوں اور چالبازیوں کے ذریعے آہستہ آہستہ پورے جنوبی علاقے میں اپنی حاکمیت قائم کرلی۔وہاں سے آگے بڑھ کر لارڈ کلایو کی کارکردگی میں غداروں کی مدد سے 1757ء میں نواب سراج الدولہ کو شہید کرکے بنگال اور بہار پر بھی قبضہ کرلیا۔اب اس وسیع علاقے کا نظم و ضبط چلانے کے لیے انگلستان سے بے شمار انگریز افسروں کو یہاں بلایا گیا۔گورنر جنرل لارڈ وارن ہیٹنگز (1774ء سے 1785ئ) نے افسروں کو حکم دیا کہ وہ اس علاقے کی زبان سیکھیں اور یہاں کے رسم و رواج کو سمجھیں تاکہ انہیں یہاں حکمرانی میں آسانی ہو۔اس وسیع علاقے میں مختلف زبانیں رائج تھیں مثلاً تامل،تلیگو،آڑیا،بنگالی اور بہاری وغیرہ۔صرف ایک زبان اردو ایسی تھی جو تمام علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی تھیں اس لئے لارڈ وارن ہیٹنگز نے انگریز افسروں کو اردو زبان سیکھنے کا حکم جاری کیا۔اس نے اس زبان کو ہندوستانی زبان کہا،اس نے کلکتہ میں اردو دان استاد مقرر کئے جو انگریز افسروں کو اردو زبان سکھاتے تھے اب انگریزوں کے تسلط میں مزید علاقے آتے گئے۔لارڈ ویلزلی کی قیادت میں 1799ء میں سلطان ٹیپو بہادر کو شہید کرکے ریاست میسور پر بھی قبضہ جما لیا۔یہاں بھی انگریزوں نے غداروں سے کام لے کر کامیابی حاصل کی۔پھر انہوں نے مرہٹوں کی طاقت کو کچلا اور 1800ء میں نظام حیدر آباد کو مجبور کیا کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو انگریزوں کے سپرد کرکے انگریزوں کا دوست بن کر حیدر آباد کے علاقے پر ہمیشہ کے لئے حکمرانی کرے ۔لارڈ ویلزلی نے انگریز افسروں کے لئے اردو زبان کی بہتر سے بہتر تعلیم کے لئے 1800ء ہی میں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا جہاں ڈاکٹر گل کرائسٹ کو اس کام کے لئے مقرر کیا۔اس نے پورے برصغیر کے اچھے اچھے اردو دانوں کو اس کالج میں ملازمت دلوائی اور ان کے ذریعے آسان اردو میں بے شمار کتابیں تصنیف و ترجمہ کروائیں۔یہ کالج بیس سال تک قائم رہا اور یہاں سے پچاس کتابیں شائع ہوئیں۔ان میں سے چند کے نام یہ ہیں۔باغ و بہار،امراؤ جان ادا،قصہ لیلٰی مجنوں،توتا کہانی، ،مذہب عشق،باغ اردو و غیر وغیرہ،اب اردو زبان آسان ہوگئی ورنہ اس سے پہلے فارسی کی تقلید میں بڑی تفصیل اور مشکل زبان میں لکھنے کا رواج تھا۔اب یہ آسان زبان خاص و عوام میں بے حد مقبول ہوگئی تو گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹنگ نے 1832ء میں فارسی کی بجائے اردو کو سرکاری زبان قرار دے دیا اب تمام سرکاری ادارے بمعہ عدلیہ میں تمام کاروبار اردو زبان میں ہونے لگا۔اور اردو زبان کی قدر و منزلت بلندیوں کو چھونے لگی۔اسی زمانے میں زبان اردو(زبان ریختہ یا ہندوستانی زبان)میں برصغیر کا پہلا ہفتہ وار اخبار جام جہاں نما،کے نام سے کلکتہ سے 27مارچ 1822 کو شائع ہونا شروع ہوا۔مگر افسوس کہ اردو زبان کی یہ برتری زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی۔وہ اس طرح کہ ایک انگریز لارڈ تھامس بلنغتن میکالے جو انتہائی فسطائی ذہنیت کا آدمی تھا اور دنیا بھر میں اپنے محکوم ممالک میں ہمیشہ کے لیئے برطانوی حاکمیت قائم رکھنے کا حامہ تھا۔اس نے برطانوی پارلیمنٹ میں 12 فروری 1838ء کے دن برصغیر پاک و ہند کے متعلق یہ تقریر کی۔جب تک کہ ہم ہندوستان قوم کی ریڑھ کی ہڈی جوکہ اس کا روحانی اور اخلاقی تقاضہ ہے نہیں توڑیں گے اس وقت تک ہم اس ملک کو فتح نہیں کرسکیں گئیں،میں تجویز کرتا ہوں کہ یہاں کا قدیم نظام تعلیم اور ان کی تہذیب و تمدن کو بدل دیا جائے ہندوستان کے لوگ ہر غیر ملکی چیز اور انگریزی زبان کو اپنے سے بہتر اور عظیم جانتے ہوئے اپنے ذاتی وقار اور اپنی آبائی تہذیب و تمدن کو کھودیں۔اگر ایسا ہوجائے تو ہماری خواہش کے مطابق وہ لوگ صحیح معنوں میں ایک مغلوب قوم بن کررہ جائیں گے۔وغیرہ وغیرہ۔لارڈ میکالے ایسٹ انڈیا کمپنی کا مشیر قانون بن کر ہندوستان آیا تو اس نے گورنر جنرل لارڈ ولیم بیٹنگ اور دوسرے اعلٰی انگریز افسروں کو سمجھایا کہ’’ٓاپنی محکوم رعایا کو انگریزی زبان سیکھنے پر مجبور کیا جائے۔مشتری سکولوں کے ذریعے بڑے نفسیاتی حربوں سے محکوم قوم کے دل و دماغ پر انگریز قوم کی طاقت و ہیبت بیٹھائی جائے۔وہ انگریزی زبان اور تہذیب و تمدن اور لباس کو اعلٰی ترین خیال کریں اور اپنی تمام مقامی زبانیں۔ اپنے لباس اور تہذیب و تمدن کو گھٹیا سمجھنے لگ جائیں ہماری درسگاہوں سے جو لوگ پڑھ لکھ کر نکلیں وہ دیکھیں تو ہندوستانی نظر آئیں مگر دل و دماغ اور سوچ سے انگریز بن جائیں۔وغیر وغیرہ۔چنانچہ اب اس ملک میں جگہ جگہ مشنری سکول قائم کئے گئے اور اعلان کردیا گیا کہ جو انگریزی زبان سیکھ لے گاوہی نوکری پر بحال رہے گا جو انگریزی نہیں سیکھے گا اسے کسی قسم کی سرکاری نوکری نہیں ملے گی اور پھر 1838ء میں لارڈ ولیم بینٹنگ نے اردو کی بجائے انگریزی زبان کو سرکاری زبان بنانے کا اعلان کردیا۔یہاں یہ بات یاد رکھی چاہیے کہ کسی انگریز عہدے دار نے یہ نہیں کہا کہ اردو زبان سرکاری زبان رہنے کی اہل ثابت نہیں ہوئی اس نے اپنے سامراجی مقاصد کے تحت انگریزی زبان رائج کردی۔لارڈ میکالے کی سوچ اور خواہش کے مطابق مسلمانوں کے ذہنوں پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے کے ستر برس بعد بھی انگریزی زبان اور لباس کی برتری قائم و دائم ہے۔اور اس سلسلے میں ذہنی غلامی سے نجات کے کوئی آثار ہی نظر نہیں آرہے ۔راقم تو اب چراغ سحری ہے ہائے افسوس کہ میری زندگی میں تو میرا یہ خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کہ کوئی قومی سربراہ ایسا آئے جو ببانگ دہل یہ اعلان کرے ۔
اپنی زبان اردو، میٹھی زبان اردو
پیاری زبان اردو، قومی زبان اردو