وہ مجھ سے صرف دو اڑھائی سال بڑے تھے۔ بڑے بھائی جان تھے، مگر ان کے فوت ہونے کے بعد مجھے لگتاہے کہ میں یتیم ہو گیا ہوں۔ میرے ابا 1974ء میں فوت ہو گئے تھے۔ میری امی دو اڑھائی ہفتے پہلے فوت ہو گئیں اور اب بڑے بھائی جان چلے گئے۔ ماں بہت بڑی ہستی ہوتی ہے۔ باپ بھی بہت بڑاہوتا ہے۔ مگر بھائی جان تو کوئی اور چیز تھے۔ ان سے زندگی میں جو بھی ایک بار ملا۔ وہ نہیں بھولا، وہ کہتا ہے کہ وہ اتنے درد و گداز اتنے سوز و ساز والے انسان تھے۔ اتنی شفقت ان کے رویے میں تھی وہ شاید ہی کسی دوسرے میں ہو، وہ صرف ہمارے لئے ایسے نہ تھے وہ سب کے لئے ایسے تھے… یہ نہیں کہ وہ میرے بڑے بھائی تھے اب وہ مر بھی گئے۔ خداکی قسم ان جیسا انسان میں نے کہیں نہیں دیکھا۔ میں آدھی دنیا پھرا ہوں۔ لاکھوں لوگوں سے ملا ہوں۔ میں نے ان کی طرح کا آدمی دیکھا نہیں ہے۔ موسیٰ خیل میانوالی میں امی اور ابا کو دفن کر آئے تھے مگر عمر بھر تلہ گنگ میں رہے۔ وہ گورنمنٹ کالج تلہ گنگ کے پرنسپل کے طورپر ریٹائر ہوئے۔ ان کی نماز جنازہ میں سارا شہر اُمڈ آیا تھا۔ انہوں نے تقریباً ساری زندگی تلہ گنگ میں گزاری، شہر کے ساتھ وفا نبھائی۔تلہ گنگ کی مٹی اس پر ناز کرے گی کہ کیا شخص تھا وہ جو اس شہر کا نہ تھا مگر اس نے یہاں دفن ہونا پسند کیا۔
ہر شہر میں ایک شخص ہونا چاہئے، ایسا شخص کہیں ہو تو اس خطے کو بہشت بنانا ہوتا ہے۔ تلہ گنگ کے لوگ ان کی آرزو کو پورا ہونے کا موقعہ دیں۔ مجھ سے لکھا نہیں جا رہا مرے جذبات مرے قابو میں نہیں ہیں۔ میں ان کے لئے لکھوں گا اور بھی لکھوں گا۔ لکھتا رہوں گا ان کے بہت پیارے بیٹے حماد نے ان کے لئے ایک تحریر لکھی ہے۔ نجانے کیسے لکھی ہے۔ یہ نثری نظم ہے حماد فطری طور پر شاعر ہے۔ تخلیقی کیفیتوں کا ایک گلدستہ کئی پھولوں سے بھر کے پیش کیا۔ حماد کی بیٹیوں سعدیہ اور نائمہ، بھائی جان اکبر نیازی کی بہنوں کنیز بتول تسنیم کلثوم منزہ اور حمیرا کے آنسوئوں نے بھی پھولوں کی شکل اختیار کر لی۔ ایک عجیب و غریب خوشبو سارے ماحول میں پھیل گئی۔ یہ وہی خوشبو ہے جو بھائی اکبرنیازی کی موجودگی سے آئی تھی۔ بھائی اکبر کی موجودگی ایک روحانی آسودگی بکھیر دیتی تھی۔ اس آسودگی میں آج ایک محبت بھرے دکھ کی فطرت بھی بھری ہوئی ہے۔ وہ روتی ہیں اور یہ رونا دنیا بھر کی بہنوں کی اذیت سے ملتا جلتا ہے۔ مگر بھائی جان اکبر کی موت کا دکھ بھی بہت منفرد ہے۔ حماد نیازی نے فوری طور پر بڑی بے ساختگی سے لکھا ہے۔ ’’اس کا روشن پُرنور چہرہ مرنے کے بعد بھی یوں تھا جیسے کسی نے اسے روشنی سے غسل دیا ہو، اس کا سینہ جیسے کوئی خوشبودار باغ ہو، اس کے ہاتھ دعا کی لو سے دھلے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھیں بہشت میں بہتے چشموں سے دھلی ہوئی آنکھیں تھیں۔ وہ بولتا تھا تو ایک جہان سنتا تھا۔ وہ خاموش ہوتا تو اس کی خاموشی ایک طلسم تھی۔ محمدؐ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کا خیال آتا اور آنسو اس کی تقدیر بن جاتے تھے۔ مسجد اس کی محبوبہ تھی اور اپنے خالق سے ملنے کی خواہش اس کی زندگی کا ازلی ابدی مقصد تھا۔ ایک جہاں اس کا دلدادہ تھا اور ایک دنیا اس کی جدائی میں سوگوار ہے۔ اس کا انکسار مضبوط آدمی کا انکسار تھا۔ وہ ایسا خوددار تھا کہ خود داری کی مکمل تہذیب اس میں موجود تھی۔ مسجد میں آپ کی خالی کُرسی پر کوئی نہیں بیٹھتا۔ خدا کی قسم آپ کی جدائی کی تکلیف سب تکلیفوں پر بھاری ہے اور یہ رنج ہر ایک رنج سے بالا تر ہے۔ ‘‘
یہ بھائی اکبر نیازی کے ہم شکل ہیں۔ چھوٹے بیٹے کے غم کا تاثر ہے ان کے بڑے بیٹے محمد بن اکبر نیازی کی نظم کا ہمیں انتظار ہے ۔
ہمارے عہد کے بہت بڑے صوفی اور بھائی اکبر نیازی کے بہت محترم دوست اور بھائی اصغر نیازی کے دل کے بہت قریب ۔ حضرت احمد جاوید بڑھاپے اور بیماری کے باوجود لاہور سے تلہ گنگ تشریف لائے۔ ان کے آنے سے ایک عجیب و غریب اور مانوس اُجلا پن چاروں طرف پھیلتا چلا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ فوت ہوتے ہیں تو یقین ہوتا ہے کے وہ سیدھے جنت میں گئے ہونگے۔ایک جملہ بھائی اکبر نیازی کا بہت یاد آتا ہے۔ مائیں اور دعائیں کبھی مرتی نہیں ہیں۔
بھائی اکبر نیازی ایسی زندگی جی گئے جس پر صرف رشک ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہر شخص اُن کی تعریف کر رہا تھا۔ وہ ایسی زندگی جی گئے کہ ایسی زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی ایسا بڑا آدمی ہے جس کی مرنے کے بعد ایسی تعریف ہو؟
رسول کریم حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابیوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ایک جنازہ گزرا جس کے لئے لوگوں نے تعریف کی۔ حضورؐ نے فرمایا۔ یہ شخص سیدھا جنت میں جائے گا۔ خدائے محمدؐ کی قسم کہ بھائی جان اکبر نیازی نے کبھی گناہ کا تصور بھی نہ کیا ہو گا۔ بھائی جان کی جدائی کی گواہی میں کہہ رہا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے اس میں ایک لفظ بھی مبالغہ نہیں ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024