دوستوں کو میں یہ سمجھاتا رہا کہ قومی اسمبلی کا سپیکر منتخب ہوجانے کے بعد تحریک انصاف کے اسد قیصر Solo نہیں ہوگئے۔ پانچ سال تک وہ خیبرپختون خواہ اسمبلی چلاتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کو وہاں قطعی اکثریت حاصل نہیں تھی۔ مخلوط حکومت سے کام چلانا مجبوری تھی۔ تحریک عدم اعتماد کی دھمکیوں سے اس حکومت کومسلسل دبائو میں رکھا جا سکتا تھا۔ اسد قیصر اور پرویز خٹک مگر ’’نیویں نیویں‘‘ رہ کر پانچ سال پورے کرگئے۔ قومی اسمبلی پہنچنے کے بعد سے وہ یہی رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہ رویہ عملی اعتبار سے یہاں موجود اپوزیشن کو زیادہ پریشان کر سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے جواں سال اراکین اسمبلی سے سرگوشیوں میں ہوئی گفتگو کے بعد میرے دوست مگر اصرار کرتے رہے کہ وزیراعظم اسد قیصر کی ’’اپوزیشن نوازی‘‘ سے خفا ہیں۔ نیب کی حراست سے شہباز شریف کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کو سپیکر نے اپنے حکم کے ذریعے یقینی بنا لیا۔ پاکستان مسلم لیگ کے صدر کو البتہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین نہیں بنواپائیں گے۔ عمران خان اس معاملے پر ہرگز یوٹرن نہیں لیں گے۔
شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک کی مدد سے لیکن اسد قیصر نے اپنے لیڈر کو بالآخر اس امر پر بھی آمادہ کرلیا۔ یہ آمادگی اتنی حیران کن تھی کہ فواد چودھری اور عامر کیانی جیسے بے باک وزراء ٹی وی سکرینوں پر لگی لپٹی رکھے بغیر اس کی مخالفت میں واویلا مچانا شروع ہوگئے۔
ان وزراء کے بیانات سے تصور یہ بھی پھیلا کہ شاید تحریک انصاف کی صفوں میں نام نہادs Hawk اور Doves کے مابین تقسیم شروع ہوگئی ہے۔ میں ذاتی طورپر مبینہ’’تقسیم‘‘ کو دیکھنے میں ناکام رہا۔ انگریزی محاورے والیEnd Game پر نگاہ رکھی۔اب واضح ہو رہا ہے کہ اسد قیصر، پرویز خٹک اور مخدوم شاہ محمود قریشی نے باہم مل کر قومی اسمبلی میں بے تحاشہ اراکین پر مشتمل اپوزیشن کو پنجابی والی ’’گجی سٹ‘‘ (گہری چوٹ) لگائی ہے۔ اس کے زخم نمایاں ہونے میں کچھ وقت درکار ہے۔اگرچہ خواجہ سعد رفیق کی صورت ابتدائی اثرات نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق کو نیب کی حراست میں اب دو ہفتے مکمل ہونے کو ہیں۔ ان کی گرفتاری کے بعد قومی اسمبلی کے چھ اجلاس ہو چکے ہیں۔ سپیکر اسد قیصر نے ان میں شرکت کے لئے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیا۔ اُمید تھی کہ منگل کی صبح ہونے والے اجلاس میں اپوزیشن سعد رفیق کی عدم موجودگی کے بارے میں ہنگامہ مچائے گی۔اجلاس کو چلنے نہیں دے گی ۔ پیرکی شب قومی اسمبلی کا اجلاس مگر جمعرات کی صبح تک ملتوی کردیا گیا۔ رواں اجلاس جمعہ کے دن ختم ہوجائے گا۔مجھے امید نہیں کہ اسد قیصر اس اجلاس میں شرکت کے لئے خواجہ سعد رفیق کو بلانے کا حکم جاری کریں گے۔ فرض کیا کہ اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی سے انہیں زچ کردیا تو شاید جمعرات کو ان کی تشفی کے لئے یہ آرڈر جاری کردیا جائے۔ ایسا ہوا تو سعد رفیق فقط ایک اجلاس میں شرکت کر پائیں گے۔ اندر کی خبر رکھنے کے دعویدار اب اصرار کر رہے ہیں کہ رواں اجلاس ختم ہونے کے بعد والے دنوں میں مزید گرفتاریاں ہوں گی۔ توقع ہے کہ اس ضمن میں آغاز آصف علی زرداری سے ہو۔ منصورآفاق صاحب نے اگرچہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کی گرفتاری کے لئے جنوری کے پہلے ہفتے کے گزرجانے کا انتظار کیا جائے گا۔ منصور آفاق کا ذکر کرتے ہوئے یاد دلاتا چلوں کہ اپنے ایک کالم میں اعتراف کر چکا ہوں کہ میں ان کا کالم بہت غور سے پڑھتا ہوں۔ وہ تحریک انصاف کے اہم فیصلہ سازوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ اپنے حالیہ کالم میں انہوں نے سمجھایا ہے کہ آصف علی زرداری کو گرفتار کرنے سے پہلے 27 دسمبر جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا دن ہے اور 5 جنوری (ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ) گزرجانے کا انتظار کیا جائے گا۔ نظر بظاہر ان کی بیان کردہ وجوہات معقول نظر آتی ہیں۔ اگرچہ یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ اگر ’’سرکار‘‘ اپنی آئی پر آجائے تو 27 دسمبر جیسی تاریخوں کی پرواہ نہیں کیا کرتی۔اس تاریخ سے قبل آصف زرداری کو گرفتار کرکے بلکہ یہ پیغام بھی تو دیا جا سکتا کہ موصوف کی گرفتاری کے باوجود گڑھی خدابخش میں محترمہ کی برسی کے حوالے سے ہوئی تقریب’’معمول‘‘ کے مطابق رہی۔ آصف علی زرداری کی عدم موجودگی نے اس تقریب کے شرکاء کو خاص پریشان نہیں کیا۔ خواجہ سعد رفیق بہرحال اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا پائے جو اسمبلی کے قاعدہ نمبر105کے تحت دئیے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اسد قیصر نے شہباز شریف کو فراہم کی تھی۔ ’’سہولت‘‘ کا لفظ میں نے بہت سوچ کر استعمال کیا ہے۔کسی زیر حراست رکن اسمبلی کو نیب وغیرہ کی حراست
سے اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لئے جو قاعدہ نمبر105ہے اس میں Shallکے بجائے Mayکا لفظ استعمال ہوا ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ کسی زیرحراست رکن اسمبلی کی اجلاسوں میں شرکت کی اجازت دینا سپیکرکی صوابدید (Discretion)پر منحصر ہے۔ وہ ’’مناسب‘‘ سمجھے تو کسی رکن کے لئے پروڈکشن آرڈرجاری کرسکتا ہے۔ وگرنہ وہی ہوگا جو خواجہ سعد رفیق کے ساتھ ہو رہا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کے ساتھ ہوا ’’خصوصی سلوک‘‘ مسلم لیگ نون کے کئی اراکین اسمبلی کو خوفزدہ کرے گا۔وہ اس گماں سے خود کو محفوظ محسوس نہیں کریں گے کہ نیب کی حراست میں ہونے کے باوجود ان کا اسمبلی آنا جانا لگا رہے گا۔ وہ اپنے ساتھیوں اور صحافیوں کے ساتھ کسی نہ کسی صورت رابطے میں رہیں گے۔ سیاسی منظر نامے سے غائب نہیں ہوجائیں گے۔اسد قیصر، پرویز خٹک اور مخدوم شاہ محمود قریشی نے ’’بڑے لوگوں‘‘ (قائد حزب اختلاف) اور عام اراکین اسمبلی کے درمیان موجود اس ’’فرق‘‘ کو اجاگرکرنے کے لئے ہی اپنے قائد کو شہباز شریف کے معاملے پر لچک دکھانے کو قائل کیا۔اس کے علاوہ جو بھی ہے فقط شورشرابہ ہے۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024