خون پھر خون ہے بہتا ہے تو رنگ لا تا ہے۔ کشمیریوں کا خون رنگ لا رہا ہے۔اس نے ضمیر عالم کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔سابق بھارتی چیف جسٹس مرکنڈے نے انڈین آرمی چیف بیپن راوت کو اس امر پر شاباش دی ہے کہ اس نے جلیا نوالہ میں جنرل ڈائر اور ویت نام میں لیفٹیننٹ کیلے کے قتل عام کا ریکارڈ مات کر دیا ہے۔ جسٹس مرکنڈے نے سفارش کی ہے کہ ا س شاندار کارنامے پر آرمی چیف اور بھارتی فوج کے ہر افسر اور جوان کو بھارت رتنا کے تمغوں سے نواز اجائے۔ یہ تھا بھارت کے اندر سے رد عمل۔
شکر ہے کہ پاکستان بھی کشمیرمیں خون کی ندیاں بہنے پر خاموش نہیں رہ سکا، سب سے پہلے تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں سخت غم و غصے کااظہار کیا اور کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہونے کاا علان کیا۔ انہوںنے کہا کہ وہ عالمی اداروں کو ایک خط کے ذریعے کشمیریوں کی مظلومیت کی طرف متوجہ کر چکے ہیں اور اسلامی کانفرنس کے رابطہ گروپ کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کی درخوست بھی پیش کر دی گئی ہے۔ اقوام عالم کا رد عمل بھی سا منے ا ٓ رہا ہے اور ملکوں ملکوں بھارتی فوج کے قتل عام کے خلاف عوام نے مظاہرے کئے ہیں،اسلامی کانفرنس نے سخت ترین الفاظ میں بھارتی بر بریت کی مذمت کی ہے اور بھارت کو خبردار کیا ہے کہ وہ کشمیریوں کی نسل کشی سے باز رہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میںبھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کے بہیمانہ قتل عام کی پر زور الفاظ میںمذمت کی ہے۔ عمران خان نے اپنے اس عزم کاا عادہ کیا ہے کہ گولی کے ذریعے نہیں، صرف پرامن مذاکرات کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کے ترجما ن نے کہا ہے کہ گولیاں نہتے کشمیریوں کی آزادی کی خواہش کو نہیں دبا سکتیں۔ فوجی ترجمان نے کشمیر اور کنٹرول لائن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر صدائے احتجاج بلند کی ہے ۔ پاکستان کی پارلیمان نے بھی بھارتی جبر کے خلاف قرارداد مذمت منظور کی ہے۔مجھے انتظار ہے وزیر خارجہ کے اس اقدام کا کہ ملک کی ساری سیاسی پارٹیاں ہم آواز ہو کر بھارت کے خلاف متحد ہو جائیں۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ کشمیر میں قتل عام کے اگلے روز جب قوم سقوط ڈھاکہ اور اے پی ایس کے شہدا کے زخموں سے چور تھی اور ا س پر مستزاد کشمیریوں کی شہادت پر ہر دل ٹوٹا ہوا تھا،پیپلز پارٹی کے لیڈر زرداری نے سیاسی چیخ و پکار بلند کرنے کو ترجیح دی اور مجھے پاکستان کی ایک اور سابق حکمران پارٹی ن لیگ کی طرف سے بھی کوئی ہلچل نظر نہ آئی۔ مجھے اس روز اپنے مرشد محترم مجید نظامی بے طرح یاد آئے جنہوںنے پیش کش کی تھی کہ کشمیر میں جابر بھارتی فوج کے ہیڈکوارٹر پر ایک ایٹمی میزائل داغا جائے اور ا سکے ساتھ انہیں بھی باندھ کر جموں چھائونی میں پھینک دیا جاے، کچھ یہی جذبہ مجھے حریت قیادت کا بھی نظر آیا جنہوںنے پلوامہ کے قتل عام کے خلاف تین روزہ سوگ کاا علان کیا اور بادامی باغ میں کشمیری فوجی چھائونی کی طرف مارچ کاا علان بھی کیا گیا، حریت لیڈروں کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج اکیلے اکیلے کشمیری کو شہید کر رہی ہے، ہم ایک ساتھ سارے کشمیری ا سکے فوجی ہیڈ کوارٹر کے سامنے جمع ہو جائیں گے تاکہ اسے ایک ساتھ ہمیںختم کرنے میں آسانی ہو سکے، یہ الگ بات ہے کہ بھارتی فوج کو اجتماعی قتل عام کی ہمت نہیں پڑتی اورا س نے کشمیریوں کے مارچ کو روکنے کے لئے چھائونی کے ارد گرد دس میل کے دائرے میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔میں اپنے مرشد محترم مجید نظامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کشمیر کی کنٹرول لائن کے پار جا کر اپنا سینہ بھاتی فوج کے سامنے کھول دینا چاہتا ہوں تاکہ وہ پاکستان میں میرے جیسے کشمیریوں کے ہمدردوں کو بھی گولیوں سے بھون ڈالے۔میں اپنی پارلیمان سے در خواست کرتا ہوں کہ وہ ڈکٹیٹر مشرف کی طرف سے کشمیر جہاد کو دہشت گردی قرار دینے کے اقدام ا ور حکم کو ختم کرے تاکہ کشمیریوں کے ہمدرد کنٹرول لائین پار کر سکیں یا اپنے کشمیری بھائیوں کی دامے درمے سخنے مدد کر سکیں۔
میں یہاں ریاست پاکستان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ کشمیر کا جو بھی حصہ آج آزادی کی فضا میں سانس لے رہا ہے‘ وہ عوامی ایکشن کے نتیجے میں بھارتی فوج کے شکنجے سے آزاد کرایا گیا تھا۔ میں اپنی ریاست کو یہ بھی یاددلانا چاہتا ہوں کہ پینسٹھ میں آپریشن جبرالٹر بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج پر ایک عوامی دھاوا ہی تھا ، اس کے بعد کارگل میں بھی عوامی دھاوے کے نتیجے میں بھارتی فوج سے یہ علاقہ چھینا گیا۔میں اپنی ریاست کو یہ بھی یاددلانا چاہتا ہوں کی انیس سو نواسی میں سوویت یونین نے افغانستان پر یلغار کی ا ور خطرہ یہ تھا کہ وہ آگے بڑھ کر پاکستان کو بھی کچل ڈالے گا تو ایک بار پھر عوام کے لشکر ہی سوویت افواج کے خلاف میدان میں اترے اور سوویت روس کو شکست فاش سے دو چار کیا جس کے نتیجے میںمشرقی یورپ ٹوٹااور سوویت روس بھی ٹوٹا۔تو کیوںنہ کشمیر کو بھی اسی عوامی طاقت سے آزاد کرانے کا تجربہ کیا جائے۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ امریکہ ا ور اقوام عالم نے سوویت افوج کے خلاف عوامی لشکروں کی بھر پور حمایت کی تھی۔ ا سلئے انہیں آج کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف عوامی لشکروں کے صف آرا ہونے پر اصولی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں بھی مکتی باہنی کی شکل میں ایک عوامی لشکر ہی کے ہاتھوں بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا تھا۔ اسوقت بھارت نے اس عوامی لشکر کی مکمل حمایت کی تھی۔ بھارت تو آج بھی علی الاعلان بلوچستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں عوام کو بھڑکا رہا ہے۔ کہیں بلوچ لبریشن آرمی سرگرم عمل ہے۔اور کہیں پی ٹی ایم محاذآرائی کی تیاری کر رہی ہے اور ان کی مدد کے لئے بھارت کھلم کھلا اپنے کل بھوشنوں کو پاکستان میں داخل کر رہا ہے۔ انہی عناصر نے کامرہ پر دو بار حملہ کیاا ور کراچی میں نیوی کے اڈے پر اورین جہاز کو تباہ کیا۔ اے پی ایس میں ڈیڑھ سو بچوں کو شہید کیا اور بھارت ہی کی شہ پر دہشت گردوں کے ایک بہت بڑے لشکر نے چودہ برس تک پاکستان میں خون کی ہولی کھیلی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے گھروں میں بیٹھے کشمیریوں کی طرح مرتے رہیں گے یا ہمیں من حیث القوم بھارت کے خلاف ڈٹ جانا چاہئے کہ وہ ایک ہی بار ہم سب کی جان لے لے۔ آج کشمیری اس انجام کو قبول کرنے کو تیار ہو چکے ہیں۔خدا وہ وقت نہ لائے جب پاکستان کے لوگ بھی بھارت سے کہیں کہ ہمیں سسک سسک کر مرنے کے بجائے ایک ساتھ مار دو اور اپنا ہندواتا اور اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کر لو۔
میں نہ مایوسی کی باتیں پھیلا رہا ہوں نہ کسی کو غدر پر ابھار رہا ہوں۔ کیا افغان مجاہدین کو ہم نے مسلح نہیں کیا تھا۔کیا مکتی باہنی کو بھارت نے مسلح نہیں کیا تھا، کیا امریکہ نے سوویت ٹینکوں کو ڈھیر کرنے کے لئے عوامی لشکروں کو سٹنگر میزائل نہیں دیئے تھے اورا ٓج اگر ہم کشمیریوں کی عملی مددکریں گے تو بھارت اور امریکہ دونوں کو اس پرا صولی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ امریکہ تو شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والوں کو اپنی کانگرس کے فیصلوں کے تحت اسلحہ اور ڈالر فراہم کر رہا ہے۔ امریکہ یمن میں بھی یہی کچھ کر رہا ہے تو اسے ہمارے اوپر کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہئے اور اگر اس نے اعتراض کرنا ہے توہ سیدھے سبھائو کشمیر مسئلہ حل کروائے ،ا سکے حل کے لئے سلامتی کونسل کئی قراردادیں منظور کر چکی ہے جس میں استصواب کا ذکر ہے۔ دنیا نے کشمیر کا مسئلہ حل نہ کرایا تو آج نہیں تو کل ، کل نہیںتو پرسوں ایک روز تو بھارت اور پاکستان کو تیسری جنگ کا رسک لینا پڑے گا ، یہ جنگ ہولناک ہو سکتی ہے ۔ دنیااس جنگ اورتباہی کو روکنا چاہتی ہے تو پہلی فرصت میں کشمیریوں کے بہیمانہ قتل عام کو رکوائے ا ور ساتھ ہی ان کو بھارت کی غلامی سے ا ٓزاد ہونے کے مواقع فراہم کرے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ بھارت کشمیریو ں کو تہ تیغ کرتا رہے اور پاکستان خاموش تماشائی بنا رہے۔ پاکستان پینسٹھ اور اکہتر میں خاموش تماشائی نہ بن سکا۔ سیاچین پر بھارتی قبضے کے بعد خاموش تماشائی نہ بن سکا تو کشمیریوں کی آئے روز کی درجنوں کے حساب سے شہادتوں پر کیسے خاموش رہ سکے گا۔ پاکستان اگر اس پر خاموش رہ سکے اور صبر کا مظاہرہ کر سکے اور کرتار پور کوریڈور کی طرح کے ایک طرفہ انیشی ایٹو لیتا رہے تو یہ بھی کشمیر کے مسئلے کا ایک حل ہے کہ اس طرح کشمیر کامسئلہ پس پشت چلا جائے گا۔ کیا کشمیر کے مسئلہ کا یہ حل کسی کو قبول ہے۔ شاید ہی کوئی بے حمیت اس حل کو قبول کر سکے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024