بھارتی مظالم پر قومی اسمبلی میں متفقہ قرارداد مذمت۔ ’’جلیانوالہ باغ کی یاد تازہ کر دی‘‘ ۔سابق بھارتی جج کا اپنے آرمی چیف پر اظہار برہمی
کشمیر میں بھارتی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹ کیاکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی جاری ہے، گولیاں کبھی بھی آزادی کیلئے لڑنے والے غیرمسلح بہادر جنگجوئوں کو نہیں روک سکتیں، بھارت کی مسلح افواج پیشہ ورانہ فوج کے طور پر اخلاقیات کا مظاہرہ کریں۔ دوسری طرف قومی اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کیخلاف متفقہ مذمتی قرارداد منظور کرلی گئی۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے مذمتی قرارداد ایوان میں پیش کی۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ ہے۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر فوری عمل کرے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اس موقع پر کہا کہ حکومت کشمیر کے حوالے سے ٹھوس پالیسی لائے اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے اقدامات اٹھائے‘ اپوزیشن بھرپور تعاون کریگی۔ وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے قومی اسمبلی میں اعلان کیا کہ حکومت اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کو کشمیر کے دورہ کی دعوت دیگی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں نے آزادی کیلئے نسل درنسل قربانیاں دی ہیں، ہم کب تک مظلوم کشمیریوں کا بہتا خون دیکھتے رہیں گے ، اب ہم چپ کر کے نہیں بیٹھ سکتے۔دریں اثناء اسلامی تعاون تنظیم نے مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی فوج کے ہاتھوں بے گناہ کشمیریوں کے قتل عام کی شدید مذمت کی اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کی قرار دادوں کے مطابق منصفانہ حل کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے انسانی حقوق سے متعلق مستقل کمیشن نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ تنظیم کے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کو مقبوضہ کشمیر کے دورے کی اجازت دے۔ پلوامہ میں بے قصور کشمیریوں پر بھارتی افواج کی بہیمانہ فائرنگ کو او آئی سی جنرل سیکرٹریٹ نے دہشت گردانہ عمل قرار دیا ہے۔
بھارت کی طرف سے سات دہائیوں سے نہتے کشمیریوں پر ظلم و جبر کا سلسلہ جاری ہے‘ کشمیری اپنی آزادی کے حق سے کسی طور دستبردار ہونے کو تیار نہیں‘ وہ بھارتی فورسز کی بربریت کو خاطر میں لارہے ہیں نہ کسی جبر کے ضابطے کے سامنے سر جھکا رہے ہیں۔ آزادی کیلئے خون کا نذرانہ دینے کا سلسلہ تو سات دہائیوں سے جاری ہے‘ اسے نئی مہمیز برہان مظفروانی کی جولائی 2016ء کو ساتھیوں سمیت شہادت سے ملی۔ کشمیری بھارتی فورسز کے اس ظلم کے بعد ایک نئے عزم و حوصلے کے ساتھ بھارت اور اسکی سفاک فورسز کو للکارتے ہوئے عالمی برادری کی توجہ اپنی جدوجہد اور بھارتی مظالم کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ڈیڑھ سال کے عرصے میں نہتے کشمیریوں نے جدوجہد آزادی کیلئے اپنے ٹمپو میں کمی نہیں آنے دی۔ اس دوران بھارتی فورسز کی طرف سے مہلک ہتھیار استعمال کئے گئے۔ پیلٹ گنوں کے استعمال سے سیکڑوں کشمیری نابینا‘ اپاہج اور اور بیسیوںشہید ہوچکے ہیں۔ انسانیت کو لرزا کر رکھ دینے والے کیمیائی ہتھیار بھی مقبوضہ وادی میں استعمال کئے گئے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ کشمیری عوام بھارتی بربریت کی بھینٹ نہ چڑھتے ہوں۔ دو روز قبل کی سفاکیت سے ظلم کی نئی تاریخ رقم کی گئی جب پلوامہ میں فورسز نے مظاہرین پر سیدھی گولیاں برسا دیں جس سے 11 نہتے اور معصوم کشمیری موقع پر ہی جام شہادت نوش کرگئے اور 300 کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ ان میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ اس بہیمانہ اقدام پر انسانیت کا درد رکھنے والے حلقوں میں بلاامتیاز مذہب و ملت اور ملک و خطہ‘ گہری تشویش پائی گئی۔ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج نے بھی بلاخوف و خطر شدید ردعمل اور برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس(ر) کاٹجو اپنے ہی آرمی چیف پر پھٹ پڑے اور جنرل بپن راوت کو طنزاً مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ’’ معصوم کشمیریوں کے قتل عام نے جلیاں والا باغ کے واقعے کی یاد تازہ کر دی۔ جنت نظیر وادی میں خون کی ندیاں بہانے والی بھارتی فوج اپنوں ہی کے ہاتھوں ذلیل ہونے لگی۔کتنے بہادر ہیں بھارتی آرمی چیف انکے فوجیوں نے پلواما میں جلیانوالا باغ اور ویتنام جیسا قتل عام کیا۔ بھارتی فوجی افسروں اور فوجیوں کو رتنا ایوارڈ سے نوازا جانا چاہئے۔ جنرل ڈائر اور موجودہ بھارتی آرمی چیف میں کوئی فرق نہیں۔‘‘ ایسے ردعمل سے بھارتی آرمی چیف اور حکمرانوں کے ضمیر پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں۔ یہ خون آشام بلائیں ہیں‘ جن کو معصوم انسانوں کا خون بہا کر افسوس نہیں اطمینان ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ کشمیریوں کا کب تک خون بہاتے رہیں گے اور عالمی برادری خاموش رہے گی؟
پارلیمان میں متفقہ مذمتی قرارداد منظور کی گئی‘ اپوزیشن اور حکومت دشمنی کی حد تک پہنچے ہوئے اختلافات کے باوجود پارلیمنٹ کشمیریوں کیلئے متحد ہے۔ کشمیریوں نے اپنی قربانیوں سے تحریک جس سطح پر پہنچا دی‘ اب پاکستان کو قراردادوں اور مذمتی بیانات سے بہت آگے جانے کی ضرورت ہے۔ کشمیری جس طرح احتجاج اور مظاہرے کررہے ہیں‘ انکے آگے بھارتی فورسز بے بس نظر آتی ہیں۔ اسی بوکھلاہٹ میں ان لوگوں پر سیدھے فائر کررہی ہیں جو بھارتی نیتائوں کے بقول اسکے اپنے لوگ ہیں۔ کشمیریوں کی آزادی کیلئے تڑپ‘ جذبے ولولے نے وادی میں حکومتی رٹ کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے جس کے باعث گورنر راج نافذ کرنا پڑا۔ بلدیاتی انتخابات کے تمام مراحل ناکام ہوگئے‘ پولنگ سٹیشن ویران رہے۔ بھارت کی بربریت اور کشمیریوں کے اسکے سامنے سینہ سپر ہونے پر تحریک آزادی ٹرننگ پوائنٹ پر آگئی ہے۔ اب پاکستان کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ صورتحال کو بھانپتے ہوئے بھارتی کٹھ پتلیاں عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی بھارت پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیلئے زور دے رہی ہیں۔ یہ ان کا بھارت کو دیا جانیوالا صائب مشورہ ہے۔
حریت رہنماء میرواعظ عمر فاروق نے یہ باور کراتے ہوئے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو قتل گاہ بنا دیا۔ انہوں نے عالمی برادری کو ثالثی کیلئے کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے۔ نوائے وقت کو دیئے گئے انٹرویو میں میرواعظ نے پاکستان چین امریکہ اور برطانیہ کو آن بورڈ کرکے سفارتی کوششیں تیز کرنے کو کہا ہے۔ بھارت کسی کی ثالثی ماننے کو تیار ہے نہ مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ ۔ جنگ اس مسئلے کا حل ہے نہ ہی آپشن ہو سکتا ہے۔ مگر بھارت حالات اس طرف لے جاسکتا ہے۔ پاکستان کی جنگ گریز پالیسی رہی ہے مگر مسلط کی گئی تو پوری دنیا کا امن تہہ و بالا ہو سکتا ہے۔ عالمی برادری کو اس کا ادراک ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ ایران پر پابندیوں کے حوالے سے متحرک ہو سکتی ہے اور جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کی آزادی کیلئے بھی وہ ضرورت سے زیادہ فعال نظر آئی تھی۔ وہ جنوبی ایشیاء میں امن کے قیام کیلئے مسئلہ کشمیر اپنی قراردادوں کے مطابق حل کیوں نہیں کراسکتی۔ 56 مسلم ممالک کی نمائندہ او آئی سی غیرمعمولی طاقت کی حامل تنظیم ہے۔ یہ پوری قوت سے مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے اٹھ کھڑی ہو تو بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کیلئے تیار ہو سکتا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024