سابق حکمران مسلم لیگ (ن) نے اس ماہ 30 دسمبر سے رابطۂ عوام مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ایوان اقبال لاہور میں مسلم لیگ (ن) کا کنونشن ہو گا، جس میں قومی اسمبلی و سینٹ کے ارکان اور پارٹی ٹکٹ ہولڈرز شرکت کریں گے۔ اس کنونشن میں پارٹی کے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف کو ممکنہ سزا کی صورت میں مریم نواز ملکی سیاست میں سرگرم کردار ادا کریں گی۔ ابتدائی طور پر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں جلسے کئے جائیں گے جن میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف خطاب کریں گے۔ گزشتہ روز میاں نوازشریف نے منسٹرز انکلیو میں مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف سے ملاقات کی اور رابطۂ عوام مہم کے حوالے سے ان سے تبادلۂ خیال کیا۔ میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ سے اپنی تاحیات نااہلیت کے بعد قومی سیاست میں جس انداز میں جارحانہ کردار کا آغاز کیا جس میں ان کی صاحبزادی مریم نواز نے ان کا بھرپور ساتھ دیا‘ اس سے بادی النظر یہ یہی نتیجہ اخذ ہوا کہ وہ کشتیاں جلا کر ریاستی اداروں کے مقابل آ گئے ہیں۔ اس سیاست کا لامحالہ ان کی پارٹی کونقصان اٹھانا پڑا جو جولائی 2018ء کے انتخابات کے نتیجہ میں اقتدار کی منزل سے دور ہو گئی جبکہ میاں نواز شریف ہی نہیں، ان کے بھائی میاں شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر قائدین کے لئے بھی سختیاں شروع ہو گئیں جنہیں وہ سیاسی انتقامی کارروائیوں سے تعبیر کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز نے نیب کے ریفرنس میں سزائیں ملنے کے بعد بھی جارحانہ سیاست ہی برقرار رکھی تاہم بیگم کلثوم نواز کے انتقال کے بعد ان کی زبان کو چپ لگی جسے سیاسی حلقے کسی ممکنہ ڈیل سے تعبیر کرنے لگے۔ مریم نواز تو ابھی تک خاموشی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں تاہم میاں نواز شریف گزشتہ چند دنوں سے سیاست میں دوبارہ فعال نظر آ رہے ہیں ا ور ان کے لب و لہجے سے جارحانہ سیاست کا ہی عندیہ مل رہا ہے۔ اسی طرح اب پیپلزپارٹی کے قائد سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی اداروں سے ٹکرائو کا عندیہ دینے والی سیاست کا آغاز کر دیا ہے جبکہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں ان کے اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف سے مصافحہ سے حکومت کے خلاف محاذ آرائی کی سیاست کے لئے اپوزیشن کے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کا عندیہ بھی مل رہا ہے، اگرچہ پیپلزپارٹی کے طرز عمل کے باعث اپوزیشن اتحاد کے ثمرات حاصل کرنے کا موقع ضائع ہو چکا ہے۔ تاہم اس وقت بھی اپوزیشن، ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ اس وقت حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کے باعث گھمبیر ہونے والے غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل سے عوام عاجز آئے ہوئے ہیں جو ان گوناں گوں مسائل سے بہرصورت ریلیف چاہتے ہیں۔ چنانچہ اپوزیشن کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ وہ عوام کے ان جذبات کو اپنی حکومت مخالف سیاست کی بنیاد بنا کر میدان عمل میں اتر آئے جس کے میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کے جارحانہ بیانات سے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کو بہرصورت عوام کو مطمئن کرنا ہوگا اور ان پر مزید ٹیکس اور مزید مہنگائی کو مسلط کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر عوام سڑکوں پر آئے اور انہیں اپوزیشن قائدین کی شکل میں اپنے جذبات کے ترجمان بھی مل گئے تو اس سے حکومت مخالف تحریک کی بنیاد مضبوط ہوسکتی ہے جو حکومت کے لئے مشکلات پیداکرے گی۔ چنانچہ حکومت کو آج اصل توجہ عوام کے روٹی روزگار کے مسائل حل کرنے کی جانب مبذول کرنا ہو گی تاکہ اپوزیشن ان کے حکومت مخالف جذبات کو اپنے حق میں کیش نہ کرا سکے۔ اپوزیشن کو بھی بہرصورت مثبت اور تعمیری سیاست کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے بصورت دیگر جمہوریت مستحکم ہونے کی بجائے لرزتی نظر آئے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024