ابوظہبی میں پاکستان کے تعاون سے ہونے والے امریکہ اور طالبان امن مذاکرات گزشتہ روز ختم ہو گئے تاہم فریقین نے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ۔ مذاکرات میں پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے نمائندے بھی شامل ہوئے۔ اسلام آباد میں دفترخارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے ایک بیان میں ان مذاکرات کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن اور مصالحتی عمل کیلئے پرعزم ہے۔ دوسری جانب چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے کابل میں پاکستان‘ چین‘ افغانستان وزرائے خارجہ کے مذاکرات کے بعد اس امر کا اظہار کیاہے کہ یہ کانفرنس بہت نتیجہ خیز رہی ہے۔ انہوں نے کہا چین دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور افغانستان سے تعاون جاری رکھے گا۔
ابوظہبی میں ایک میز پر امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کا بیٹھ کر سنجیدگی سے مذاکرات کرنا، افغان امن کی تلاش کی کوششوں میں ایک اہم پیشرفت ہے۔ اس سے پہلے، دہشت گردی سے براہ راست متاثر ہونے والے ملکوں، پاکستان ، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے میثاق اور فیصلوں سے بھی خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے امکانات کافی روشن ہوئے ہیں۔ تمام فریقوں کے درمیان مذاکرات کے سوا افغان مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ وزیراعظم عمران خان برسوں سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو افغان مسئلہ کا حل قرار دیتے رہے ہیں۔ افسوس کہ اس تجویز پرغور و خوض کی بجائے اس کا مذاق اڑایا گیا اور ان پر طالبان خان کی پھبتیاں کسی گئیں۔ بدقسمتی سے امریکہ نے تاریخ سے کوئی سبق نہ سیکھا اور طالبان مسئلے کا حل بھی طاقت کے استعمال میں ہی تلاش کیا۔ کوریا، ویت نام اور کمبوڈیا کی جنگوں سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا تھاکہ طاقت سے مسئلے حل نہیں ہوا کرتے۔ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ٹھنڈے دل و دماغ سے فریق مخالف کو سننے اور اس کے موقف کو وزن دینے سے، آبرومندانہ سمجھوتے کی کوئی نہ کوئی راہ نکل آتی ہے۔ امریکہ نے تمام متعلقہ فریقوں کو سننے کی بجائے بھارت کے مشوروں کو زیادہ اہمیت دی، دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی خوفناک جنگ کے بعد بھی ڈومور کے مطالبوںکا صاف مطلب یہ تھا، کہ امریکہ نے حقائق سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ افغانستان میں امن کے لئے مختلف محاذوں پر جوکوششیں شروع ہو گئی ہیں وہ نہایت خوش آئند ہیں۔ تاہم انہیں کامیابی سے ہمکنار کرنا ضروری ہے جس کیلئے واشنگٹن اور کابل نے ہی بنیادی کردار ادا کرنا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024