میاں نواز شریف کے گارڈز کا ٹی وی کیمرہ مین پرتشدد
ابھی لوگ مسلم لیگ کے گلو بٹ کی ماردھاڑ سے بھرپور پچھلی فلم بمشکل بھولے تھے کہ اسلام آباد میں میاں نواز شریف کے سکیورٹی گارڈ کی شکل میں ایک اور گلو بٹ سامنے آ گیا۔ یہ تو بالکل ویسے ہی ہے جیسے مشہور زمانہ ’’بشیرا‘‘ فلم کے بعد ایک اور بڑا کردار ’’مولا جٹ‘‘ کی شکل میں پنجابی فلموں کے شائقین کے لئے دلچسپی کا باعث بنا۔ اس سکیورٹی گارڈ نے جس طرح ایک ٹی وی کیمرہ مین کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا وہ ان سب لوگوں کے لئے بھی شرمناک ہے جو وہاں موجود تھے اور تماشہ دیکھتے رہے۔ اب یہ غنڈہ نما سکیورٹی گارڈ پولیس کی تحویل میں ہے اور بے چارا کیمرہ مین ہسپتال میں۔ کیا اہم شخصیات نجی سکیورٹی گارڈز رکھتے ہوئے ان کا بائیو ڈیٹا معلوم نہیں کرتیں کہ ان میں کہیں کوئی بشیرا یا مولا جٹ تو نہیں چھپا۔ یہی منفی کردار کے لوگ جب کسی بڑی شخصیت کے ساتھ جڑتے ہیں تو آہستہ آہستہ ان کے ہاتھ پائوں کھلنے لگتے ہیں۔ اب میاں نواز شریف نے ا س واقعہ پر افسوس کا اظہار کر کے گونگلوئوں سے مٹی جھاڑ دی ہے۔ محترمہ مریم اورنگزیب نے ہسپتال جا کر زخمی کیمرہ مین کی عیادت بھی کی ہے جو ایک مثبت بات ہے مگر ایسے منفی کردار کے لوگوں کی بطور سکیورٹی گارڈ بھرتی میںکس کا دوش ہے۔ اس ہتھ چھٹ کلچر کے محرکات پر بہرصورت پر غورکرنا ہو گا ورنہ کہیں بھی دوبارہ اس قسم کی فلم کا تیسرا پارٹ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
چنیوٹ میں بلے کوبلی کے ذریعے ورغلا کر چوری کر لیا گیا
آج تک کبوتر بازوں کا یہ شغل دیکھا اورسُنا تھا کہ وہ اپنے گروپ سے بچھڑے ہوئے کسی کبوتر کو پکڑنے کے لئے اپنے ماہرکبوتر اڑاتے ہیںجو اپنے دائرے میں گھیر کر اس تنہا کبوتر کو اپنے ٹھکانے پر لے آتے ہیں۔ اسی طرح گلی محلوں میں اکثر لڑائی جھگڑا اس بات پر ہوتا ہے کہ فلاں کا مرغا فلاں کی مرغی یا مرغیوںکے ورغلاوے میں آ کر ان کے ساتھ چلا گیا تھا۔ مگر دوسرا فریق یعنی مرغی والے تسلیم نہیں کرتے کیونکہ اس وقت تک وہ مرغا عام طور پر یا تو ہانڈی میں ہوتا ہے یا مرغی والوں کے پیٹ میں۔ مگر یہ پہلی دفعہ دیکھا ہے کہ کسی شاطر قسم کے جانوروں کے شوقین نے کسی قیمتی یا اعلیٰ نسل کے بلے کو چوری کرنے کے لئے ایسی اندر سبھا رچائی ہو۔ اب معلوم نہیں انہوں نے اس چالاک بلی کو ایسا پاٹھ پڑھایا کیسے۔ سدھایا کیسے کہ وہ مٹک مٹک کر اس شریف بلے کے گھر میں داخل ہوئی اور نہایت مہارت سے نازو ادا کے ساتھ اس معصوم بلے کا دل لبھایا اوراسے ورغلایا۔ وہ بے چارا اس شاطر بلی کی ادائوں کے آگے مات کھا گیا اور جو جو وہ کہتی اس کی وہ مانتا گیا اور بالآخر اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا گھر سے باہر آ گیا جہاں موجود پہلے سے اغوا کاروں نے آناً فاناً اسے دبوچ لیا اور لے گئے۔اب دیکھتے ہیں بلے کے مالکان رپورٹ کس کے خلاف درج کراتے ہیں نامعلوم افراد کے یا عیار بلی کے۔
٭٭٭٭٭٭
لندن میں جائیدادیں قانونی طریقے سے بنائی ہیں۔ فیصل واڈا
اب کوئی واڈا صاحب سے پوچھے کہ حضرت آپ کن جھمیلوں میں پڑ گئے۔ بقول آپ کے عابد شیر علی نے نشے میں نجانے کون سی جائیداد میری بتا دی۔ معاملہ ٹھپ ہونا چاہئے آپ کی طرف سے صاف انکار کے بعد بہت سے پاکستانیوں کو بھی یقین آ گیا ہو گا کہ آپ کی لندن میں کوئی جائیداد نہیں۔ مگر یہ تو
؎نہ نہ کرتے پیار تمہی سے کر بیٹھے
کرنا تھا انکار مگر اقرار تمہی سے کر بیٹھے
والا معاملہ نکل آیا۔ شاید تحقیقات کے خوف سے آپ خود ہی جن جائیدادوں سے انکار کر رہے تھے انہیں جائز اور قانونی طریقے سے خریدی گئی قرار دے رہے ہیں۔ عابد شیر علی کے معصومانہ سوال کا تو یہ جواب ہونا چاہئے تھا جی ہاں یہ میری ہیں۔ بس قصہ ختم ہو جاتا ۔ کس نے اس کی جائز یا ناجائز حیثیت جاننا تھی۔ مگر آپ نے تو فوراً حساب بے باق کرنے کے لئے ان کو قانونی قراردیدیا۔ اب اگر خدانخواستہ عابد شیر علی عدالت میں چلے گئے تو وہاں کیا ہو گا۔ وہاں تو پہلے ہی بہت سے لوگ اپنی جائیدادوں کو قانونی ا ورجائز قرار دینے کے چکر میں چکر کاٹ کاٹ کرنڈھال ہو رہے ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا جو لوگ اس ملک میں رہتے ہیں جائز ناجائز طریقے سے یہاں اربوں روپے کماتے ہیں وہ یہ رقم یہاں کیوں نہیں رکھتے‘ یہاں کیوں انڈسٹری نہیں لگاتے یا کوئی کاروبار شروع نہیں کرتے۔ سب دیوانہ دار کیوں یہ پاکستانی دولت دیار غیر میں لے جا کر چھپاتے ہیں۔ جائیدادیں بناتے ہیں۔ جائز ناجائز کو چھوڑ بھی دیںتو کیا ان کا یہ طرزعمل درست قراردیا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
گدھوں کی تعداد میں اضافہ۔ پاکستان تیسرا بڑا ملک بن گیا
یہ ایک اچھی خبر ہے کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر گدھوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ اب اس پر پاکستانی گدھے (عوام نہیں) خوشیاں منا سکتے ہیں کہ ان کی وجہ سے پاکستان عالمی فہرست میں وکٹری سٹینڈ پرپہنچ گیا ہے۔ محکمہ لائیو سٹاک پنجاب نے یہ خوشخبری تو سنا دی مگر یہ نہیں بتایا کہ ملک میں گدھوں کی تعداد کتنی ہے۔ یوں یہ خوشخبری ادھوری محسوس ہوتی ہے۔ سب سے حیران کن امر یہ ہے کہ کوئٹہ، پشاور ، کراچی میں نہیں لاہور میں حیرت انگیز طور پر گدھوں کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو 41 ہزار سے تجاوز کر گئے ہیں۔ اس سے بڑی خبر یہ کہ حکومت پنجاب نے ان لاہوری کھوتوں کے بہتر علاج و معالجے کے لئے ہسپتال بھی قائم کر دیا ہے۔ جہاں انہیں مفت طبی سہولتیں میسر ہوں گی۔ اس خبر کا اہم پہلو یہ ہے کہ لاہوریوں کوکھوتوں کا گوشت کھلانے والی خبریں صرف افواہیں تھیں۔ یہ جان بوجھ کر خوش خوراک لاہوریوں کو گوشت سے متنفر کرنے کے لئے پھیلائی گئی تھیں۔ کیونکہ اگر یہ سچ ہوتیں تو لاہور میں گدھوں کی تعداد بہت کم ہونا چاہئے تھی مگر گدھے یہاں خوب پھل پھول رہے ہیں جبکہ کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں ا یسااضافہ نظر نہیں آ رہا ۔وہاں کے رہائشی ذرا ہوشیار رہیں کہیں افغانی ہوٹل والے انہیں روسٹ کڑاہی، کباب ، تکوں اور پلائو کے نام پر کم ہونے والے ’’دراز گوشوں‘‘ کا گوشت تونہیں کھلا رہے۔ لاہورئیے تو بچ گئے باقی شہروں والے خیر منائیں اور بہتر یہی ہے کہ ان صوبوں کے محکمہ لائیو سٹاک والے بھی گدھا شماری کا آغاز کر دیں تاکہ ان کی تعداد میں کمی کا سختی سے نوٹس لیا جا سکے۔ اگر پاکستانی حکام ذرا سی دانش انسانی کا مظاہرہ کریں تو گدھوں اور کتوں کی فارمنگ کر کے یہ مال چین ، تھائی لینڈ وغیرہ فروخت کر کے بھاری زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے…
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024