نیشنل ازم کے بارے میں بے حسی پاکستان کا افسوس ناک مسئلہ رہا ہے۔ ماضی میں قومی مفاد کو اکثر اوقات بری طرح نظر انداز کیا گیا بلکہ ہم قوم پرست محب وطن لیڈروں کو سنگدلی سے شہید کرتے رہے ذاتی گروہی اور سیاسی مفادات آج بھی پاکستانی ریاست میں بالادست ہیں پارلیمنٹ ریاست کا سپریم ادارہ ہے۔ پارلیمانی تاریخ گواہ ہے کہ پارلیمنٹ نے قومی مفاد کے دفاع اور تحفظ کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کی اور نہ ہی یہ ادارہ قومی مفاد کے تحفظ میں کامیاب رہا ہے۔ پارلیمنٹ ان قوانین پر بھی عمل درآمد نہیں کرا سکی جن کا تعلق عوامی اور قومی مفاد میں ہے۔ پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ کوئی دہری شہریت کا حامل فرد پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا، مگر ہم نے ماضی میں دیکھا کہ درجنوں ایسے افراد بھی پارلیمنٹ کے رکن بن گئے جو دہری شہریت کے حامل تھے۔ جب پارلیمنٹ ناکام ہوتی ہے تو ریاست کے دوسرے اداروں کو چھوڑی ہوئی سپیس سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ عدلیہ نے دُہری شہریت کے حامل اراکین پارلیمنٹ کو نااہل قرار دیا جو کام حکومتوں کو کرنا چاہیے تھا وہ اب عدلیہ کر رہی ہے۔ حالانکہ یہ ان کا بنیادی آئینی فریضہ نہیں ہے۔
گزشتہ دس سالوں کے دوران حکومتوں نے پاکستان کے عوام کو مکمل طور پر لاوارث چھوڑ دیا۔ پرائیویٹ سکولوں کے مالکان من مانی فیسیں وصول کرتے رہے، حکومت نے مانیٹرنگ کر کے مفاد عامہ کے تحفظ کی ذمہ داری پوری نہ کی عدلیہ نے پرائیویٹ سکولوں کی ہوشربا فیسوں کا نوٹس لیا تو عوام کو پتہ چلا کہ سکولوں کے مالکان نے تعلیم کو صنعت میں تبدیل کر دیا ہے اور طلباء سے اس قدر بھاری فیسیں وصول کی جا رہی ہیں جو آئین میں دئیے گئے بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایف آئی اے سے تفتیش کروائی تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ کم و بیش بارہ سو افراد جو دُہری شہریت کے حامل ہیں بیوروکریسی کے ا علیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ ایف آئی اے جو ایک پیشہ ورانہ ریاستی ادارہ ہے جسے گزشتہ 10 سال کے دوران غیر فعال بنا کر رکھ دیا گیا اس کی تحقیق کے مطابق درجنوں بیوروکریٹس نے اپنی ملازمت کے دوران دُہری شہریت حاصل کی اور پاکستان کی سلامتی کے تقاضوں کو بھی نظر انداز کر دیا۔ سپریم کورٹ نے جرات مندانہ فیصلہ سنایا ہے جس میں پارلیمنٹ سے کہا گیا ہے کہ وہ دُہری شہریت کے بارے میں قانون سازی کرے اور دُہری شہریت کے حامل افسران کو پابند کیا جائے کہ وہ دوسرے ملک کی شہریت چھوڑ دیں یا پھر اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے دیں۔ ایسی درجنوں شہادتیں موجود ہیں کہ دُہری شہریت کے حامل بیوروکریٹس نے قومی خزانے کی لوٹ مار کی اور منی لانڈرنگ کر کے اسے بیرونی ملکوں میں لے گئے جن ملکوں کی انہیں شہریت حاصل تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی ملک دہری شہریت کا درجہ دیتا ہے تو شہریت حاصل کرنے والے شخص کو یہ حلف اٹھانا پڑتا ہے کہ وہ ریاست کا وفادار رہے گا۔ گویا اس طرح وہ شخص اپنی وفاداری کو دو ریاستوں کے درمیان تقسیم کر دیتا ہے۔ سپریم کورٹ نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سعودی عرب میں ملازمت کا بھی نوٹس لیا ہے اور حکومت کو پابند کیا ہے کہ وہ قواعد و ضوابط کے مطابق سابق آرمی چیف کو این او سی جاری کرے۔ سابق حکمران جو بڑے بڑے دعوے کرتے رہتے ہیں ان کو قوم کے سامنے ندامت کا اظہار کرنا چاہیے کہ انہوں نے سابق آرمی چیف کو قواعد و ضوابط کے برعکس سعودی عرب میں نوکری کرنے کا این او سی جاری کردیا۔ جب پارلیمنٹ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنا شروع کر دے گی تو عدلیہ کے ججوں کو سول حکومت کے کاموں میں مداخلت کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی۔
پاکستان کی منتخب اور غیر منتخب حکومتیں عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ تعلیم صحت پانی سکیورٹی اور پبلک ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی عوامی سہولتیں بھی پرائیویٹ ہوچکی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ سرکاری سکولوں کوجانتے بوجھتے ہوئے زوال پذیر کیا گیا تا کہ پرائیویٹ سکولوں کے لئے حالات کو سازگار بنایا جاسکے۔ پرائیویٹ سکولوں کے مالکان انتہائی بے دردی کے ساتھ والدین کو لوٹتے رہے اور من مرضی کی فیسیں وصول کرتے رہے۔ اگر سرکاری سکول معیاری ہوتے تو یہ صورتحال کبھی پیدا نہ ہوتی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومتوں نے کبھی پرائیویٹ سکولوں کے مالکان سے باز پرس نہیں کی کہ وہ فیسوں میں ہوشربا اضافہ کرکے تعلیم کے نام پر کھلی لوٹ مار کیوں کر رہے ہیں حکمرانوں کی بدنیتی اور نااہلی کی وجہ سے عدلیہ کو پرائیویٹ سکولوں کا بھی نوٹس لینا پڑا تاکہ شہریوں کو ان کے استحصال سے نجات دلائی جا سکے۔
عدلیہ نے حکم صادر کیا ہے کہ جو پرائیویٹ سکول پانچ ہزار ماہانہ سے زیادہ فیس وصول کر رہے ہیں وہ فیسوں میں بیس فیصد کمی کریں ہوشربا فیس لینے والے سکولوں کا فرانزک آڈٹ کرنے کا بھی حکم جاری کیا ہے تاکہ عوام کو پتہ چل سکے کہ پرائیویٹ سکولوں کے مالکان کس قدر منافع حاصل کر رہے ہیں۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق ایف آئی اے نے چھاپے مارکر 22 پرائیویٹ سکولوں کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ پرائیویٹ سکول ایک طالب علم پر کیا خرچ کر رہے ہیں اور ان کو منافع کتنا حاصل ہو رہا ہے اور وہ اپنے منافع سے ریاست کو کتنا ٹیکس دے رہے ہیں ۔جب یہ حقائق عوام کے سامنے آئیں گے تو وہ حیران رہ جائیں گے۔ پاکستان کے محب وطن عوام اپنی بہادر عدلیہ کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں کہ جو کام ان کے منتخب نمائندوں کو کرنا چاہیے تھا وہ پاکستان کے دلیر اور بے باک چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کر دکھایا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے قومی مفاد میں ہر قسم کے دباؤ اور لالچ کو مسترد کردیا ہے۔ انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق ایک شخص نے چیف جسٹس پاکستان سے کہا کہ آپ نے اتنے دشمن پیدا کرلیے ہیں کہ جب آپ ریٹائر ہو جائیں گے تو آپ کی جان کو شدید خطرہ ہوگا۔ مرد قلندر چیف جسٹس پاکستان نے جواب دیا کہ وہ اب 65 سال کے ہوچکے ہیں اگر وہ اپنے ملک کے لیے شہید بھی ہو جائیں تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں گے۔
طلبہ کے والدین کو اب آنکھیں کھول کر بیدار ہو جانا چاہیے عدلیہ نے سکولوں کے مالکان کو پابند کیا ہے کہ وہ نہ تو سکول بند کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی طالب علم کو سکول سے خارج کرسکتے ہیں۔ یہ موقع ہے کہ پاکستان کے عوام ہر ظلم ہر جبر کے خلاف متحد اور منظم ہوجائیں کیونکہ طاقت ور اور آزاد عدلیہ ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ پاکستان اپنی تاریخ کے فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ چکا ہے اس مرحلے پر اگر عوام اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں تو وہ قومی لٹیروں اور مافیازسے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کرسکتے ہیں ۔پاکستان کے جو مفاد پرست افراد قومی لٹیروں کے سہولت کار بننے کی کوشش کر رہے ہیں ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ عدلیہ کو اپنی بنیادی آئینی ذمہ داری بھی پوری کرنی چاہیے اور عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کے لئے اور عدلیہ میں کرپشن کے خاتمے کے لئے سنجیدہ اور نظر آنے والی کوششیں بھی کرنی چاہئیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38