دئیے سے دیاجل رہا ہے اہل دل’ اہل خیر کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا رہے ہیں ۔وزیر اعظم عمران حساس دلوں میں احساس آدمیت کی لو جگا رہے ہیں اس مردہ ضمیر اور زوال پذیر معاشرے میں جہاں گندی مال دولت کے لئے ارب کھرب پتی، اپنی اولادوں کو پہچانے سے انکاری ہیں معجزہ ہورہا ہے کراچی تا پشاور روشنی پھیل رہی ہے تمام اضلاع میں ایسی پناہ گاہوں کو بنانے اور چلانے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں۔
ریاستیں اسی احساس سے چلتی ہیں جو پاکستانی قوم میں زندہ و بیدار ہورہا ہے جس احساس کی رمق عمران خان کے اس اقدام میں نظرآرہی ہے جس کا مظاہرہ ان یخ بستہ ہواؤں میں کھلے آسمان تلے ٹھٹھرنے والوں کو عارضی پناہ گاہیں دے کر کیا گیا ہے۔ مخالفین اور ناقدین ہوسکتا ہے اسے کوئی بڑی کامیابی نہ سمجھیں لیکن اگر ان سردراتوں میں کچھ دیر کسی سنسان جگہ اکیلے کھڑے ہوکر یخ زمین پر بیٹھ کر سوچیں تو شاید ان کے دل میں بھی کچھ احساس پیدا ہوجائے۔
نجانے ہم کیوں بھول گئے ہیں کہ اچھے کاموں پر حوصلہ افزائی سے آپ بتدریج انسانوں کو بڑے اور مزید بہتر فیصلوں کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ ہم اچھے کام کو بھی بْرا کہنے کی عادت بد کا آخر کیوں شکار ہوگئے ہیں؟ آگ برساتا سورج ہو یا پھر ہڈیوں کا گودا جمادینے والی دسمبر کی سرد کی راتوں میں ایک ایک لمحہ کیسے گذرتا ہے عمران خان تو حقیقی معنوں میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے تھے لیکن خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے بینواؤں کا درد اس نے کیسے محسوس کیا یورپ کی انسانیت نواز فلاحی ریاستوں نے کیسے ‘‘ریاستِ مدینہ ‘‘ کا تصور ہمارے کپتان کے دل میں اجاگر کیا یہ روحانی واردات قلب ہی تو ہے۔
جس نے وزیراعظم عمران کی روح و قلب کو منور کردیا ہے بیرون ملک بالخصوص یورپ کا دورہ کرکے آنے والوں کے قصے کہانیاں بڑے ہی دلچسپ ہوتے ہیں۔ قانون کی سختی اور وہاں کی انسانیت کا خوب خوب ذکر کرکے یہاں رہنے والے انسانوں کے ذہن میں یہ خواب سجادیتے ہیں کہ دراصل انہیں بھی سمندر پار اس دھرتی کا ہی رْخ کرنا چاہئے جہاں احترام آدمیت ہے۔ جہاں انسان تو انسان جانوروں کا بھی ایسا خیال رکھاجاتا ہے کہ وہ پورے اعتماد کے ساتھ سڑک پر رواں دواں دکھائی دیتے ہیں۔عمران خان خوش بخت ہیں کہ بشری بی بی جیسی روحانی ہستی کا قرب میسر ہے جنہوں نے ان کی قلب و نظر کو غریبوں کے دکھ درد سے آشنا کردیا ہے۔ یہ عارضی پناہ گاہیں ریاست مدینہ کی تشکیل کی جانب پہلا عملی قدم ہیں برکت کایہ عالم ہے کہ سب کچھ ایک دھیلا پائی خرچ کئے بغیر ہورہاہے
اہل خیر بڑھ چڑھ اس کام میں حصہ لے رہے پشاور سے کراچی تک اک نیا جہاں آباد ہورہاہے۔ کپتان کی حکومت کے اب تک کے اقدامات میں اس سوچ کی جھلک ملتی ہے جو ریاست مدینہ کی طرف جاتی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے لاہور سے سڑک چھاپ بے آسرا لوگوں کو عارضی پناہ گاہوں میں لے جانے کا جو کار خیر شروع کیاتھا، وہ اب پشاور، کراچی سمیت ملک بھر میں شروع ہوچکا ہے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے گزشتہ روز ہی سیلانی ویلفئیر کو دعوت دی ہے کہ وہ عارضی پناہ گاہوں کے قیام کے سلسلے میں حکومت کی معاونت کرے۔ سیلانی ویلفئیر روزانہ ایک کروڑ روپے کا کھانا تقسیم کرتی ہے۔ گورنر سندھ نے سیلانی ویلفئیر کو مستحق افراد کے لئے گھروں کی تعمیر میں شراکت داری کی بھی پیشکش کی ہے۔بے گھر لوگوں کیلئے شیلٹر ہوم منصوبے کے سنگ بنیاد رکھنے کے بعد وزیراعظم نے کہا تھا کہ ملک میں غریب افراد کی تقدیر بدلنے کیلئے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والی تمام تنظیموں کو یکجا کرنے کی مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔
ہم چین کے 30 سال میں 70 کروڑ افراد کو غربت کے نکالنے کے تجربے سے استفادہ کریں گے۔ پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست بنائیں گے لاہور میں بے گھر افراد کیلئے شیلٹر ہوم کا قیام اسی سمت میں ایک قدم ہے۔
شیلٹر ہومز کے قیام کیلئے پانچ جگہیں مختص کی گئی ہیں ہم راولپنڈی، پشاور اور کراچی میں بھی ایسے شیلٹر ہومز بنا رہے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم نے جس فلاحی اسلامی ریاست کا خواب دیکھا تھا جہاں تمام شہریوں کو رنگ' نسل' زبان اور صنف سے بالاتر ہوکر یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔
شیلٹر ہوم کی تعمیر کا مقصد ایسے لوگوں کی عزت نفس کو بحال کرنا ہے جو آسمان تلے رات گزارتے ہیں۔ یہ منصوبہ محفوظ مقامات کے قیام کے ذریعے مستحق افراد کی ضروریات بھی پوری کرے گا۔ منصوبے میں اہم سماجی مقاصد پر تربیت دینے اور عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے پروگراموں کے لئے کثیر المقاصد ہالز کی تعمیر بھی شامل ہے۔لاہور کی پناہ گاہ کے بے گھرمکینوں کو مفت علاج کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔ عارضی پناہ گاہوں میں شام کے وقت موجودڈاکٹر بیمار مکینوں کا طبی معائنہ کریںگے اورادویات بھی فراہم کی جائیں گی۔ پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی مخیرحضرات کے اشتراک سے پناہ گاہیں قائم کی جائیںگی۔
پناہ گاہ کے بیمارمکینوں کومزید علاج معالجے کیلئے ڈاکٹر کی ہدایت پر ہسپتالوں میں بھجوایا جائے گا۔ پناہ گاہوں میں رہنے والے افراد کو بروقت رات کا کھانا اورناشتہ فراہم کیا جائے مسافروں کی حفاظت کیلئے سول ڈیفنس رضاکاروں کیساتھ ساتھ پولیس تعینات کی جائے۔ مسافروں کی بائیو میٹر ک تصدیق کیلئے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کی معاونت حاصل کی جائے گی۔مستقل پناہ گاہوں کی عمارتوں کی جلد ازجلد تعمیر یقینی بنائی جائے۔ اسی طرح پشاور کی مرکزی پناہ گاہ 29 کمروں اور پانچ بڑے ہالوں پر مشتمل ہے، جبکہ مرکزی پناہ گاہ میں 200 افراد کی رہنے کی گنجائش موجود ہے۔
راولپنڈی میں پناہ گاہ میں موجود لوگوں کو کھانا کھلایا جا رہا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن پر آج تک کسی نے بھی توجہ نہیں دی تھی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے ان لوگوں کیلئے نہ صرف پناہ گاہیں بنائی بلکہ ان پناہ گاہوں میںان کے کھانے پینے کا بھی بندوبست کیا گیا۔
ہر کام میں کیڑے نکالنے والوں اور ناک بھوں چڑھانے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ منزل نہیں بلکہ اس جانب قدم ہے جو ہم سب کی آرزو ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھ شامل افراد غلطیوں سے مبرا نہیں لیکن اللہ تعالی اچھی نیت کو زیادہ پسند فرماتا ہے کیونکہ اس میں دکھاوا نہیں ہوتا۔
ہم کسی اچھائی کا سوچیں تو اس پر بھی خالق کائنات خوش ہوجاتا ہے۔ انسان لیکن بہت پتھر دل ہے۔ بْرے کو بْرا نہیں کہہ سکتے، نہ کہیں لیکن اچھے کو اچھا تو کہہ سکتے ہیں۔ اگر صرف یہی چلن اختیار کرلیں تو اچھائی کی حوصلہ افزائی سے ہی بہت بڑی تبدیلی آجائے گی کیونکہ اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024