اقوام متحدہ دنیا میں امن قائم کرنے میں اپنا طے شدہ کردار ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور عملاً امریکہ کی دھونس دھاندلی کے زیراثر اس حوالے سے اپنی افادیت کھو چکی ہے۔ روس کو جب تک سُپرپاور کا درجہ حاصل رہا تب بھی امریکہ اور روس کے متحارب کردار نے اس ادارے سے انصاف اورمیرٹ کو دیس نکالا دے دیا تھا اور اب امریکہ اکیلے وہ سب کچھ کر رہا ہے جو پہلے روس اور امریکہ مل کر بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے دوسرے کے جائز موقف کی مخالفت اور اپنے ناجائز موقف کی حمایت میں کرتے تھے اور اقوام متحدہ کے تعمیری کردار کو تقریباً ختم کر چکے تھے۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ کے کئی ادارے بالخصوص وہ ادارے جو کسی کی چودھراہٹ کے لئے چیلنج نہیں بنتے اچھا کام کر رہے ہیں۔
معاشرتی رویوں میں تبدیلی اور جاہلیت کی بنیاد پر اپنے کردار کو متعین کرنے اور اس پر جم جانے سے ہونے والے نقصانات کا احاطہ بھی کیا جاتا ہے اور ان بے حیثیت وجوہ کو بہت زیادہ حیثیت دے کر خود کو برباد کرنے سے بچنے کے گر بھی بتائے جاتے ہیں۔ منفی اقدامات سے مثبت نتائج مرتب کرنے کا ابلاغ بھی کرایا جاتا ہے جسے ہٹ دھرمی کو اپنا دھرم بنا لینے والوں کے علاوہ ہر کوئی سدھرنے اور سدھارنے کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کا ایسا ہی ایک ادارہ ہر سال ایک تحقیقاتی پروجیکٹ پر کام کرتا ہے جس کا مقصد انسانی رویوں میں بہتری لانا اور معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ دنیا والوں کو خوش دیکھنے کی تمنا اور اہل جہاں کے دکھ کم کرنے کی خواہش ہی عالمی خوشی یا ورلڈ ہیپی نیس انڈکس تیار کرتا ہے کہ کس ملک کے لوگ کتنے خوش ہیں۔
اس انڈکس کی تیاری میں معاشی اور معاشرتی حالت، آزادی اظہار، لوگوں کا اپنے ملک وہاں کی حکومت یا اداروں پر اعتماد اور یقین و اعتماد کو بُنیاد بنا کر یہ انڈکس تیار کیا جاتا ہے۔ پاکستان بالعموم دنیا کے ممالک میں خود کو وسط میں رکھنے پر اکتفا کر لیتا ہے۔ اب جن ایک سو پچپن ممالک کا یہ ورلڈ ہیپی نیس انڈکس تیار ہوا ان میں پاکستان 80 ویں نمبر پر ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ خوش ان ممالک کے لوگ ہیں جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ دوسرے کا بھلا نہ کر سکیں تو بُرا نہیں چاہتے اور سب سے زیادہ دکھی ان ممالک کے لوگ ہیں جو اپنے سے زیادہ دوسروں کی زندگی کے ایک ایک پہلو سے اپنے لئے آزردگی اور افسردگی پیدا کر لیتے ہیں۔ اس حوالے سے ناروے، ڈنمارک اور آئس لینڈ وہ ممالک ہیں جہاں کے عوام خوش رہنے خوش رکھنے اور خوش نظر آنے میں خود کو اقوام عالم میں پہلی دوسری اور تیسری پوزیشن پر قبضہ جما لیا ہے اور کس بھی صورت یہ قبضہ چھوڑنے کو تیار نہیں۔ پاکستان جس خطہ میں آباد ہے ، اس میں ہر ملک خواہ وہ بھارت ہو یا نیپال سری لنکا ہو ، بنگلہ دیش ہو یا چین ان ممالک میں عوام کے دُکھی اور رنجیدہ رہنے کی وجوہات میں دوسروں کی ترقی یا خوشحالی سے ہونے والے حسد دوسروں سے جلنے ان کی کامیابیوں کو ناکامیوں میں بدلنے کی اگر عملی نہیں تو ذہنی کوشش ان کے خلاف نفرت و کدورت ، کینہ ، غم، پریشانی اور افسردگی میں اضافہ کرتے ہیں۔ منفی سوچ کا ایک تو حوالہ بہت پہلے قصے کہانی کی شکل میں سامنے آیا تھا جب ایک شخص نے کسی جنگل میں ایک بے سہارا کو سہارا دیا اس کی بے لوث خدمت کی اس کی تنہائی کے عذاب کو اپنی موجودگی سے کم کیا اور بالآخر جب اسے بظاہر آسودہ ا ور مطمئن دیکھا تو اس سے اجازت چاہی کہ اب وہ اپنے دنیاوی کام کاج کرے بیوی بچوں کی دیکھ بال کرے۔ اپنے ساتھ اس حسن سلوک پر اس شخص نے اپنے اجنبی محسن سے کہا میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کچھ نہیں بلکہ میرے پاس اپنے لئے بھی کچھ نہیں ۔
مجھے ایک اللہ والے نے یہ ہنڈیا دی تھی کہ جنگل میں میرے کھانے پینے کا انتظام آسانی سے ہو سکے۔ میں جب چاہتا اور جو چاہتا وہ سوچتا اور اس میں وہ کھانا تیار ہو جاتا اگرچہ میں نے اس سے اس طرح فائدہ نہیں اٹھایا اور ہمیشہ اپنے نفس کو پھلنے پھولنے اور گمراہ ہونے سے روکنے کے لئے ضرورت کی چیز سوچی تاکہ خوش خوراکی کی عیاشی مجھے سُست الوجود نہ بنا دے اور بندگی کا جو سرور اس جنگل میں مجھے میسر ہے وہ خوش خوراکی سے آلودہ نہ ہو جائے میں یہ ہنڈیا تمہیں دیتا ہوں اس نصیحت کے ساتھ کہ اس کا زیادہ تذکرہ نہ کرنا۔
ہنڈیا لیکر جو نہی یہ شخص گھر پہنچا تو مرغ پلائو کا سوچا اور ہنڈیا گرم گرم مرغ پلائو سے بھر گئی سارے گھر والوں نے سیر ہو کر کھایا اب ہر روز مزے مزے کے کھانے اس گھر کے مکینوں کو میسر آ رہے تھے۔ ہمسایوں میں انواع و اقسام کے کھانوں کی خوشبو سے اس شخص کی بیوی کا ا صرار بڑھ گیا کہ اس کی سہیلیاں پوچھتی ہیں کہاں سے یہ ہنڈیا ملی ہے اور پھر بیوی کے اس اصرار نے عملاً اس شخص کا ناک میں دم کر دیا اس نے بابے کا پتہ بتا دیا اہل محلہ جو حسد اور کینے سے جل بھن رہے تھے با بے کے پاس پہنچ گئے وہ ان کو اکٹھے دیکھ کر کہنے لگا مجھے پتہ تھا تم ضرور آئو گے مگر میرے پاس صرف ایک ہنڈیا تھی وہ میں نے اس شخص کو دے دی جس نے تم لوگوں کو میرا پتہ بتایا ہے وہ یک زبان بولے بابا جی خدا گواہ ہے ہم ہنڈیا لینے نہیں آئے ہم تو آپ کے پاس یہ درخواست کرنے آئے ہیں کہ خدارا اس سے ہنڈیا واپس لے لیں اس نے تو ہمارا جینا حرام کر دیا ہے مگر پچھلے دنوں اس کی عملی شکل بظاہر ان لوگوں میں دیکھنے کو ملی جو ایک نسبتاً پڑھے لکھوں کی بستی میں رہتے تھے کہ کسی قانونی تقاضے کو پورا کرنے کے لئے انہی میں سے ایک ایسے شخص کو کوئی عارضی انتظامی ذمہ داری سونپی گئی جس کا ہر کوئی احترام کرتا تھا مگر دائمی حسد اور کینہ رکھنے والے یہ خبر ملتے ہی تین چار لوگ جو چند روز پہلے اس شخص سے ملاقات کے لئے وقت مانگ رہے تھے اور اس کے گھر جا کر اس کی میرٹ والی باتوں پر جھوم رہے تھے ، یہ ذمہ داری دینے والے کے پاس جا کر کہنے لگے کہ ہمیں اپنی بستی کے اس شخص کو یہ ذمہ داری دینے پر اعتراض ہے وہ اسے ہٹوانے میں ناکام ہونے کے بعد واپس آ گئے تو ایسے تھا جیسے اپنے اپنے چہرے کی رونقیں وہیں چھوڑ آئے ہیں۔ جس شخص کو یہ انتظامی ذمہ داری ملی اسے اپنی بستی کے ان لوگوں پر بڑا ترس آیا اور ان کے نام نہاد لیڈر سے کہاکہ تم مجھے اس رضاکارانہ ذمہ داری سے ہٹوانے کے لئے اتنی دور کیوں گئے تھے مجھے کہتے میں خود ہی یہ ذمہ داری چھوڑ دیتا۔ وہ اپنے گھر آئے اس ٹولے کو دو تین ایسے حوالے دے چکا تھا جو ا س کے قد کاٹھ کا اندازہ کرنے کے لئے کافی تھے جس سے احمق سے احمق شخص کو بھی یہ سمجھ آ رہی تھی کہ یہ معمولی ذمہ داری اس شخص کے لئے بہت ہی غیر اہم ہے۔
چنانچہ اس نے استعفیٰ متعلقہ اتھارٹی کو بھیجنے میں ایک منٹ کی بھی تاخیر نہ کی۔ اگرچہ استعفیٰ منظوری کے مراحل میں کئی دن لگ گئے اور وہ دن کسی بھی ایسے شخص کے اعصاب پر سوار رہے جو دوسروں کے معاملات میں دلچسپی لیتا ہے۔ زندگی میں دھتکارے ہوئے‘ ناکام اور معقول صحبت اور تربیت سے محروم اپنے لئے کسی کے ذمہ داری سنبھالنے اور چھوڑنے پر آزردہ ہو جائیں تو ا سے جہالت ہی کہیں گے۔ معاشرے میں ایسے لوگ اپنی مصیبتوں میں جو اضافہ کرتے ہیں اس پر ان پر ترس کھانا اور ان سے ہمدردی کرنا ہی انسانیت کی خدمت ہے۔ ذمہ داری سنبھال کر بھی خدمت کی جا سکتی ہے اور ذمہ داری چھوڑ کر بھی اگرچہ خود کردہ را علاج نیست مگر پھر بھی ان کے درد اور تکلیف کو کم کرنے کے لئے اپنا بہترین ذریعہ ہے اور انہیں نظرانداز کرنا اعلیٰ ترین حکمت عملی ان کے دکھوں کا مداوا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اپنے دکھوں کا خود بندوبست کرتے ہیں جس کی وجہ سے دکھی ہوتے ہیں اس کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024