فلمسازوں اور ہدایتکاروں نے موسیقی کا بیڑہ غرق کر دیا:فاروق بمبے والا
سیف اللہ سپرا
فاروق بمبے والا شوبز کی دنیا کا ایک بڑا نام ہے۔ انہوں نے اداکاری بھی کی‘ گلوکاری بھی کی اور موسیقی بھی ترتیب دی۔ پاکستان کے علاوہ بھارت کی فلم انڈسٹری میں بھی کام کیا۔ برصغیر کی مقبول ترین فلم ”مغل اعظم“ کے مشہور کورس سانگ ”محبت زندہ باد“ میں انہوں نے بھی گلوکاری کی۔ ریڈیو پاکستان پر 1970ءسے گارہے ہیں۔ پی ٹی وی کے بھی مختلف پروگراموں میں گاتے رہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے وہ ڈبل اے کیٹگری کے فن کار ہیں۔ بھارت میں قیام کے دوران وہاں مختلف تقریبات میں گاتے رہے ہیں۔ بھارت میں قیام کے دوران ان کی دلیپ کمار‘ شیاماجی ‘ محمد رفیع سمیت بالی وڈ کی اہم شخصیات کے ساتھ ملاقاتیں رہی ہیں جو ان کا اثاثہ ہیں۔آج کل لاہور میں ہی مقیم ہیں۔ گزشتہ روز اپنے ساتھ اپنا قیمتی خزانہ (دلیپ کمار اور بالی وڈ کی دوسری اہم شخصیات کے ساتھ تصاویر) لے کر ”نوائے وقت“ آئے اور راقم الحروف کے ساتھ اپنی یادیں شیئر کیں۔
محمد فاروق بمبے والا نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ برصغیر کے عظیم فن کار دلیپ کمار کے چچا غلام محی الدین گل میرے والد کے بھائی بنے ہوئے تھے مجھے گلوکاری اور اداکاری کا شوق تھا چنانچہ میں 1957ءمیں لاہور سے بمبے چلا گیا اور وہاں پر دلیپ کمار (یوسف خان) کے چچا غلام محی الدین سے ملا۔ انہوں نے مجھے بیٹا بنا لیا۔ دلیپ کمار نے مجھے معروف موسیقار نوشاد صاحب اور بھارتی فلم انڈسٹری کی دیگر اہم شخصیات سے ملاقاتیں کروائیں۔ میں نے آل انڈیا ریڈیو بمبئی میں گانا بھی شروع کردیا وہاں پر اکثر طلعت محمود‘ منا ڈے اور مکیش کے ساتھ ممبئی کے برل ہال اور دیگر تقریبات میں گانا شروع کردیا جس کا بہت اچھا رسپانس ملا۔ اس کے علاوہ میں ممبئی میں میوزک ڈائریکٹر سجاد حسین کے ساتھ چیف اسسٹنٹ بن گیا۔ بھارتی فلموں میں بھی گانا شروع کردیا۔ مقبول ترین بھارتی فلم ”مغل اعظم“ کا مقبول ترین گانا ”محبت زندہ باد“ محمد رفیع کے ساتھ میں نے بھی گایا۔ بھارت کی ایک خوبصورت اداکارہ شیاما جی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بہت جذباتی ہوگئے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا انتقال حال ہی میں (14 نومبر 2017) ہوا اور ان کے ساتھ میرا حقیقی بھائیوں والا رشتہ تھا۔ ان کے انتقال سے مجھے صدمہ پہنچا۔ دراصل ان کا تعلق لاہور سے ہی تھا۔ یہ 1935ءکو لاہور کے علاقے باغبانپورہ کی ایک ارائیں فیملی میں پیدا ہوئیں اور ان کا اصل نام خورشید تھا اور ان کے والدین پاکستان بننے سے پہلے ہی لاہور سے ممبے شفٹ ہوگئے تھے تاہم ان کی ایک بہن اور بھائی لاہور میں ہی مقیم رہے۔ شیاما جی کی شادی بالی وڈ کے سب سے بڑے فوٹوگرافر فلی مستری سے ہوئی۔ میرے شیاماجی کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اس لئے ان سے فون پر اکثر رابطہ رہتا تھا۔ ایک دن شیاما کا مجھے فون آیا کہ فاروق آپ ایم صادق کے پاس ماڈرن سٹوڈیو ممبئی چلے جانا اس لئے کہ آج کل ایم صادق فلم تاج محل بنا رہے ہیں میں نے انہیں کہہ دیا ہے کہ یہ گانا آپ فاروق سے گنوا لیں میں نے انہیں کہا ہے کہ اگر آپ نے کسی اور سے گانا لیا تو میں آپ کی فلم نہیں کروں گی۔ شیاما جی نے یہ شرط رکھ دی میں دوسرے دن ایم صادق کے پاس ماڈرن سٹوڈیو پہنچا ایم صادق نے مجھے چائے بسکٹ کھلائے اور کہنے لگے کہ فاروق فلم تاج محل کا گانا تم گا لو میں نے کہا میوزک ڈائریکٹر کون ہے انہوں نے جواب دیا روشن صاحب ہیں ایم صادق نے کہا کہ فاروق اس گانے کی ریہرسل محمد رفیع کرگئے ہیں میں نے جواب دیا کہ بابو جی میں گانا نہیں گا سکتا اس لئے کہ محمد رفیع میرے پیارے دوست ہیں اور فلم انڈسٹری میں جو پہلے ریہرسل کرجائے وہی گانا بھی گاتا ہے۔ شیاما جی کو میں خود کہہ دوں گا تاج محل کا گانا تیسرے دن محمد رفیع نے گایا جس کے بول ہیں ”جو وعدہ کیا تھا نبھانا پڑے گا۔“
پاکستان میں اپنی مصروفیات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ریڈیو پاکستان پر 1970ءسے گا رہا ہوں اور وہاں پر ڈبل اے کیٹگری ہے ریڈیو پاکستان پر 26 سال سے لائیو پروگرام گا رہا ہوںاور ریڈیو پر میرے گائے ہوئے گانے ”جاگدے نے رات ساری تارے کدوں سوندے نیں‘ بھولی ہوئی صدا مجھے یاد کیجئے میں ان سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجئے‘ جدوں رب کردا مہربانی بہت مقبول ہوئے۔“ اس کے علاوہ پی ٹی وی کے مختلف پروگراموں میں گانے گائے۔
پاکستان میں موسیقی کے حالات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گلوکاری کا بہت ٹیلنٹ ہے افسوس کہ یہاں پر فلم سازوں اور ہدایت کاروں نے مل کر موسیقی کا بیڑا غرق کردیا ہے۔