موجودہ عدالتیں جب بھی کوئی فیصلہ دیتی ہیں، کسی نہ کسی کے مروڑ اٹھنے لگتی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی تقریر سن کر احساس ہو رہا تھا کہ ہماری موجودہ عدالتیں ضمیر کی روشنی پر چلنے لگی ہیں لیکن ہمارے ہاں ” روشنی “ کی شرح اور تفہیم بھی مختلف ہے مثلاً کچھ لوگ اتنے نیک اور قیمتی ہوتے ہیں کہ انکے لحاف اور کمبل سے بھی روشنی پھوٹ رہی ہوتی ہے۔ اللہ بھلا کرے یہ موبائل جس کی بھی ایجاد ہے، سیدھا جہنم ہی جائے گا۔موبائل اور کمپیوٹر کی ایجاد نے پاکستانیوں کی زندگی بالکل بدل کر رکھ دی ہے۔ گھر چاہے تین یا پانچ مرلے کے گھر میں ہوں لیکن موبائل قیمتی ترین ہو گا جیسے اکثر چھوٹے گھروں میں رہنے والے بڑی گاڑیاں رکھ کر امراءسے برابری کا شوق پورا کرتے ہیں۔ پاکستان میں اکیسویں صدی میں جو شوق اور رجحانات پروان چڑھے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ امیر ہونے کا شوق ہے ہر شخص راتوں رات امیر ہو جانا چاہتا ہے۔ ہر شخص کو بڑا عہدہ اور بڑا بزنس کرنے کا شوق ہے ، ہر آدمی بڑی ڈگری حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پچھلے تیس پینتیس سال سے حکومت کی نا اہلیوں کا یہ حال ہے کہ وہ کوئی ادارہ چلانے کے لائق نہیں ہے کسی چیز پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔ ہر ادارہ پرائیوٹائز کر دیا گیا ہے۔ 70فیصد تعلیمی ادارے پرائیوٹائز یا خود مختار کر دیئے گئے ہیں جہاں یہ سمسٹری ایک ڈیڑھ لاکھ روپے فیس لی جاتی ہے۔ ایک بی ایس پروگرام دس سے پندرہ لاکھ روپے فیس میں ہوتا ہے۔ دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں یعنی والدین کو اپنے ایک بچے کو اگر بی ایس کرانا ہو تو ان کے چار سال میں اٹھارہ سے بیس لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں اور اگر تیس لاکھ تک اس کے انٹر تک اخراجات آئے ہیں تو گویا ایک بچے کی تعلیم پر پچاس لاکھ روپیہ لگتا ہے لیکن اکثریت کو نوکری نہیں ملتی۔ اس سے حکومت کی نا اہلی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیوں میں 85فیصد طالبعلموں کا فوکس صرف” ڈگری“ کا حصول ہوتا ہے۔ وہ کیا پڑھتے ہیں اور کس طرح پیسہ دیتے ہیں اور کیسے نمبر لگتے ہیں اکثر طالبعلموں کا یہ درد سر ہی نہیں ہے۔ وہ یونیورسٹی صرف اس لئے آتے ہیں کہ کسی طرح اپنا جی پی اے بڑھا کر GPAاچھا کر سکیں تا کہ انہیں ڈگری مل سکے۔ طالبعلم اس کے لئے جامعہ کے آزمودہ طریقے اختیار کرتا ہے۔ استاد بھی اپنی پی آر شپ کے لئے احتجاج نہیں کرتا کیونکہ اس سے اس کی نوکری چلی جاتی ہے۔ یونیورسٹی کو اس سے کوئی سروکار نہیں، انہیں صرف فیسوں اور ریٹنگ سے دلچسپی ہوتی ہے۔ والدین کو تو ایک فیصد بھی اس طریقہ کار پر اعتراض نہیں ہوتا لہذا ہمارا ایجوکیشن سسٹم ” لگے رہو منے بھائی“ پر چل رہا ہے۔ جس طریقے سے قوم کے نونہال ڈگریاں لے رہے ہیں بالکل اسی طریقے سے پیسے اور پی آر کے زور پر عہدے نوکریاں بھی حاصل کر لی جاتی ہیں۔ طالبعلم یہ اہداف لیکر جاتے ہیں کہ پچاس لاکھ ماں باپ نے خرچ کیا ہے تو اب اس ڈگری سے پچاس کروڑ کمانے ہیں۔ اب نوجوانوں کو تو دولت کمانے کا شوق ہی ہے لیکن ادھیڑ عمر اور بوڑھے لوگ بھی دولت کمانے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ گاﺅں میں بیٹھے لوگ بھی دولت کمانے کیلئے ہر نا جائز حربہ استعمال کرتے ہیں۔ زمینداروں، وڈیروں، جاگیر داروں اور سیاستدانوں کی وجہ سے سب سے زیادہ کرپشن کو فروغ ملا۔ نا جائز ذرائع سے دولت کے انبار اکٹھے ہوئے تو بلیک منی کو وہائٹ منی کرنے کے نت نئے طریقے دریافت کر لئے گئے۔ اس میں مذہب کو بھی شامل کرتے ہوئے دولت کے پجاریوں کو خوف نہ آیا، کچھ لوگوں کا زور حج اور عمروں پر رہا کچھ نے مسجدیں اور مدرسے بنوائے۔ چیرٹی کے ذریعے بھی بلاک بنی کو وہائٹ کیا گیا۔ صحافت ادب اور ہیومن رائٹس کے نام پر بھی بلیک منی کو وہائٹ ڈریسنگ کی گئی۔ عمران خان نے ٹھیک ہی تو کہا ہے کہ آخر سعید رفیق کے پرائز بانڈ کیسے نکل آتے ہیں۔ حیرت ہے کہ خواجہ سعد رفیق کے ہر سال ساڑھے سات کروڑ کا پرائز بانڈ نکل آتا ہے۔ اسحاق ڈار کے چند لاکھ روپے اربوں کھربوں میں بدل جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے بچوں کی اللہ میاں کی طرف سے لاٹریاں نکل آتی ہیں۔ کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں کی میاں نواز شریف کے تین بچوں نے کبھی لاٹری یا پرائز بانڈ بھی نہیں خریدا لیکن وہ دس بارہ سالوں میں بغیر محنت کے کھربوں کے اثاثوں کے مالک بن گئے۔ سابق چیف جسٹس افتخار احمد کا نوجوان بیٹا بھی صرف تین سال میں یکا یک کئی کروڑ کا مالک بن گیا تھا اور آج تک یہ معمہ حل نہیں ہوا کہ یہاں انجینئرنگ، ایم بی اے، پی ایچ ڈی کرنے والے تو دھمکے کھا رہے ہیں۔ انہیں چند ہزاری نوکری بھی نہیں ملتی لیکن ارسلان افتخار کے ہاتھ میں کونسا اللہ دین کا چراغ آیا تھا کہ تین سال میں تیس کروڑ کما لئے، یہ چمتکار ہمارے ساتھ کیوں نہیں ہوتا۔ ویسے تو ہماری صحافی برادری میں بھی دس ایسے بڑے ہیں جن کا ماضی دھار غربت کرائے اور بے سروسامانی کی داستانیں چھپائے بیٹھا ہے۔ قینچی چپل اور ملائشین شلوار قمض کے دو جوڑے ، جیب میں چونیاں اٹھنیاں یا ایک دو تڑے مڑے چھوٹے نوٹ ہوتے تھے ۔ کرائے کا کمرہ اور ویگن بس کی سواری ہوتے تھے۔ آج گھر میں چار بیش قیمت گاڑیاں، دو یا چار کنال کا گھر، ایک دو ایکڑ کا فارم ہاﺅس، چار پانچ بنکوں میں کئی کروڑ روپیہ، سال میں چار سے دس غیر ملکی دورے، فائیو سٹار ہوٹلوں میں نا شتہ اور لنچ کرتے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ایک کنگلا صرف بیس تین سالوں میں اتنے اثاثوں کا مالک کیسے بن گیا۔ ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کو چاہئے کہ وہ ملک کے دس بڑوں کا حق اور انصاف کے مطابق بے لوث انصاف کر دیں، چاہے وہ نواز شریف اور شہباز شریف ہوں، عمران خان اور شیخ رشید ہوں، الطاف حسین ، پرویز مشرف یا آصف زرداری ہوں، محمود خان اچکزئی یا اسفند یار ولی ہوں۔ مولانا فضل الرحمن ہوں۔ جب ان دس سے نجات ملے گی تو ان کے نیچے ان کے جو مزید90مشیر وزیر ساتھی ہیں، ان کے گرد بھی شکنجہ کسے گا۔ نہ عمران خان انقلاب لانے والے ہیں اور نہ شریف برادری کو مزید آزما کر پاکستان کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔ محمود خان اچکزئی اور اسفند یار نے کبھی پاکستان کی بھلائی نہیں سوچی، فضل الرحمن نے مذہب کے نام پر قوم کو چرکہ لگایا ہے۔ الطاف حسین کا کردار سامنے آ چکا ہے ، آصف زرداری پاکستان کے لئے ایک مہلک بیماری ہیں۔ شیخ رشید زندگی بھر وزارتیں انجوائے کرتے رہے اور خود تو خاک نہیں اڑائی۔ آجکل عمران خان کی چاپلوسی کی انتہا کر دی ہے۔ عمران خان کو خوش کرنے کے لئے جلسہ میں فرماتے ہیں کہ جمائما کو سیاست میں لائیں ۔ جو عورت بیوی کی حیثیت سے پاکستان میں نہیں رہی۔ اسے کیا مصیبت ہے کہ پاکستان کی گندی سیاست میں آئے گی۔ یہی بات حیران کن ہے کہ ایک دو کمروں کے چھوٹے سے فلیٹ سے عمران خان نے تین سو کنال کا بنی گالہ میں گھر کیسے خرید لیا۔ ہماری عدالتوں کو بھی غور کرنا چاہئے کہ فیصلوں کی بنیاد حقائق پر رکھیں اور کم از کم پاکستان کو ان دس بڑوں سے نجات دلائیں۔ تب ان کے نیچے بیٹھے ان کے ساتھی جو قومی خزانہ لوٹ رہے ہیں، جن کے پرائز بانڈ نکل رہے ہیں اور جن کے اثاثے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ اس مظلوم ملک کو ان سے نجات ملے۔
دس بڑے اور نو چھوٹے
سو کے سو ہیں کھوٹے
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38