جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بطور چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل معزز سپریم کورٹ کے بینچ نمبر 1 نے لاپتہ افراد سے متعلقہ کیس جس کا بہت زیادہ انتظار کیا گیا کا فیصلہ سنایا ۔ فوج،دانشوروں ‘ اسٹیبلشمنٹ اور خود مختار عدالت کے مابین چل رہی تکرار ، جو کہ شاید ایک تنازع بن گئی ہے، کے دوران معزز عدالت نے ایک فیصلہ جو کہ قانون کی نظر میں فتح لیکن درحقیقت یہ ایک شکست ہے۔
عدالت کا لاپتہ افراد کی غیر قانونی قید و بند کو واضح طور پر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دینا قانون کی نظر میں ایک فتح ہے ۔ یہاں تک کہ ” دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کی آڑ میں کئے گئے فوج،انٹیلی جنس کے آپریشنز کا کوئی آئینی مینڈیٹ نہیں ہے جو ایسے افراد کو مقدمہ کے منصفانہ طریقہ کار میں اپنے لئے کی گئی جائز التجا سے انکار کی وجہ بنے تاہم اس فیصلے کا اعلان بھی لا پتہ افراد کو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے آہنی ہاتھوں سے بازیاب کروانے میں ناکام رہاکہ چیف جسٹس کے ریٹائرمنٹ تک اس معاملے کو لٹکانے میں کامیاب رہے جبکہ حقیقت میں یہ عدالتوں اور قانون کی بدستود شکست کا موجب ہے۔
لاپتہ افراد سے متعلق 721 مقدمات پاکستان بھر میں مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں جبکہ موجودہ معاملہ مالاکنڈ کی ایک جیل سے35افراد کے لاپتہ ہونے اور ان کو کسی نامعلوم مقام پر منتقل کیے جانے سے متعلقہ ہے۔عدالت عظمیٰ کے مشاہدے کے مطابق یہ پتہ لگانا ناممکن ہے کہ کس نے ان افراد کو اٹھایا ہے ، انہیں کہاں رکھا اوران پر کیاالزمات عائد کئے گئے ہیں۔ یہ شک ہے (جو کہ لاپتہ افراد کے گھر والوں اور مالاکنڈ کے جیل سپریٹنڈنٹ کے بیانات کی وجہ سے کیا جارہا ہے) کہ فوجی انتظامیہ اس غیر قانونی گمشدگی میں ملوث ہے۔
بادی النظر یہ جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ان افراد کی غیر قانونی گمشدگی اور قید و بند (اس سے قطع نظر کہ کونسی ایجنسی یا فوجی حکام اس آپریشن میں ملوث ہیں) آئین کی دفعات کی رو سے واضح طور پر غیر قانونی ہے۔خاص طور پر آئین کی شق 4کے مطابق ہر شخص کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک روا رکھا جائے گا(خواہ وہ دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہو) اور آئین کی شق 5کی رو سے یہ ہر شہری(مسلح افواج کے ارکان سمیت) کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون اور آئین کا احترام اور فرمانبرداری کرے۔ مزید برآں بنیادی حقوق کے حوالے سے آئین کی شق 9 کی رو سے قانون کے مطابق کسی بھی شخص کو آزادی اور جینے کے حق سے محروم نہیںرکھا جائیگا ۔ آئین کی شق 10کے مطابق کسی بھی فردکو قانونی کارروائی کے بغیر زیر حراست نہیں رکھا جاسکتا۔آئین کی شق 10A کے مطابق تمام افراد منصفانہ سماعت کا حق رکھتے ہیں،شق 14کے مطابق تمام افراد کی عزت کی حفاظت کی جائیگی(خاص طور پر ثبوت حاصل کرنے کے لئے تشدد سے)، شق 15 ہر شخص کوآزدی سے تحریک چلانے کا حق دیتی ہے اور شق 25 تمام شہریوں سے غیر امتیازی سلوک اور مساوی قانونی تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔
یہ ہمارے سکیورٹی اداروںکی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کی دفعات پر سختی سے عمل کریں۔ شہریت کے مدنظر تمام قوانین پاکستان میںتشدد اور دہشتگردی سے نبٹنے کے لئے بنائے گئے ہیںجن میں تعزیرات پاکستان (1860)،انسداد دہشتگردی ایکٹ(1997) اور پاکستانی دستور کی حفاظت(2013) شامل ہیں ان تمام قوانین پر آئینی ڈھانچے کے مطابق عمل درآمد کیا جائیگا جبکہ عسکری قیادت پر بھی آرمی ایکٹ(1952) اور تما م دیگر قانونی ذرائع اور انتظامی احکامات جو فوجی قوتوں اور انٹیلی جنس کی نگرانی کے فرائض انجام دیتے ہیں ،کو آئین کی پاسداری کرنی چاہےے۔ قانون سازی کے جو اقدامات آئین سے ماورا ہوں گے۔درحقیقت یہ قانون کی نظر میں غیر مستحکم اور ناممکن النفاذ ہوں گے۔
جیسا کہ آئینی منشور کے پس منظر میں لاپتہ افراد کو الزامات سے قطع نظر قانو نی تحفظ سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔حتیٰ کہ فوجی حکام کے دلائل کہ یہ جنگ (جوکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ)کی صورتحال ہے اور عسکریت پسندوں کوقانونی تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکتا نقائص سے بھرپور ہیں۔ در حقیقت دہشتگردی کے خلاف جنگ کے فوجی آپریشنز آئین کی شق 251(1) (قومی قوت کی تائید میں فوجی کارروائی) کے مطابق، جو کہ قانون کے تحت سب سے محفوظ طریقہ ہے، میں کئے جاتے ہیں(اایک گمنام دشمن جو کہ اکثرپاکستانی شہر ی ہوتاہے) جو قانون کے تحت سب سے زیادہ محفوظ طریقہ ہے۔یہاں تک کہ ان آپریشنز کے دوران شہریوں کے بنیادی حقوق کو نہ تو نظر انداز کیاجاتا ہے اور نہ ہی ان کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
اسی طرح سے (غیر سرکاری)سکیورٹی فورسز کے دلائل کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے اور لاپتہ افراد کی غیر قانونی گرفتاری پر ان کے دلائل کو سمجھنا ضروری ہے۔ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ(پولیس،فوج اور انٹیلی جنس) کے دلائل بھی بے بنیاد نہیں ہےں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ماضی میںانہوں نے جب بھی کسی مشتبہ دہشتگرد کو عدالت کے سامنے پیش کیا تو استغاثہ اور پاکستانی عدالتیںبنا کسی رکاوٹ کے انہیں دہشتگرد ثابت کرنے میں ناکام رہیں اور ایسے خطرناک مجرموں کواکثر مقدمے کی سماعت کے ابتدائی مراحل میں ہی ضمانت پر رہا کر دیا جاتا رہا ہے۔ضمانت کی بنیاد پر رہائی سے ان آزاد مشتبہ افراد کے نہ صر ف حوصلے بلند ہوتے ہیں بلکہ یہ پاکستان بھر میں مزید دہشتگردانہ کارروائیاں انجام دینے لگتے ہیں جن کا ذمہ دار قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ٹھہرایا جاتاہے۔ نتیجتاً(ان کا مانناہے کہ) پاکستان اور اسکے عوام کے مفاد کی غرض سے دہشتگردی کی کارروائیوںمیں ملوث مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے منصف عدالتوں اور غیر محفوظ استغاثہ حکومت کے سامنے پیش کرنے سے قبل ہی تفتیش کر لی جائے۔
قانون ساز برادری کے لئے یہ قبول کرنا بہت مشکل ہے کہ سکیورٹی اداروں کے دعوے بے بنیاد نہیں ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں کسی بھی مشتبہ دہشتگردکو کو ئی بڑی سزا نہیں دی گئی۔ اسلام آباد میں پبلک پالیسی ریویو سینٹر کی جاری ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی میں حال ہی میں ہونے والی17بڑی کارروائیوں( مثال کے طور پر میریٹ میں ہوا بم بلاسٹ) میں ملوث تمام مشتبہ افراد کوبغیر کسی امتیازکے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ وجہ کیاتھی؟اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے قائم اصولوں کے مطابق ثبوت ناکافی تھے۔
دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد اور آئینی خلاف ورزیوں کے مدنظر جبکہ عدالت عظمیٰ کے لاپتہ افراد کے فیصلہ میں بظاہر کوئی عیب نہیں ہے، عدالت اور قانونی برادری کو مشتبہ دہشتگردوں کو سزا دلوانے کے لئے اپنے معیار اور نقطہ نظر پر از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ‘ قانون کی ڈھیلی گرفت کے باعث (محاسبے سے آزاد) رہا ہو جانے والے تمام مشتبہ افراد کو عدالتوںکے سامنے پیش کئے جانے کا تقاضا بھی بے کار ہے۔
ہمارا انسداد دہشتگردی کا قانون‘ حکمت عملی اورنقطہ نظر منتشر ہوچکے ہیں اور اس کے صرف ایک ہی پہلو پر قانون ساز اداروں کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے۔قابل غور امر یہ ہے کہ موجودہ مسائل کو قانون کے مطابق حل کرتے ہوئے مشتبہ افراد کو قانون کے دائرہ کار میں لایاجائے۔ لاپتہ افراد کو عدالت کے سامنے لازمی پیش کیاجانا چاہےے کیونکہ ہمارے آئین کا نظریاتی عہد اور ہماری قوم کے اخلاقی تانے بانے حتیٰ کہ ناگوار تنازعات میں بھی برے سے برے شخص کو قانونی تحفظات دینے کا تقاضا کرتے ہیں۔ لیکن یہ عہد عدالت میں اسی صورت میں نافذالعمل اور قابل قبول ہو سکتاہے جب دہشگردی کی اس تکلیف دہ وباءکو ختم کیا جائے جو ہمارے قومی تانے بانے کو بکھیر رہی ہے اورثبوت کے معیار کا جائزہ لیاجائے ۔ان وحشی افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38