جمعۃ المبارک ‘ 20 محرم الحرام، 1444ھ، 19 اگست 2022 ء

بھوک کا شکار ممالک میں پاکستان 92 اور بھارت 101 نمبر پر
بے شک چند سالوں میں اس فہرست میں پاکستان کی درجہ بندی چند پوائنٹس بہتر ہوئی ہے مگر ابھی تک ہمارے خطے کے کئی ممالک جن میں سری لنکا‘ بنگلہ دیش اور نیپال بھی شامل ہیں‘ بہتر پوائنٹس کے ساتھ ہم سے آگے ہیں۔ لے دیکر بھارت میں ہم سے بدتر حالت ہے۔ بس یہی بات ہمارے لئے باعث اطمینان ہے۔ دنیا جائے بھاڑ میں بس بھارت کو کسی میدان میں ہم سے آگے نہیں ہونا چاہئے۔ خاص طورپر برے حالات میں تو اسے بہرحال ہم سے بھی گیا گزرا ہونا ہمارے لئے طمانیت کا باعث ہوتا ہے۔ یہ تو بات سے بات نکلی اور کہاں جا پہنچی۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ ہمارے لئے افسوس کا مقام ہے کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں جہاں قدرت کی فیاضی سے ہر قسم کا موسم ہے۔ ہر قسم کی فصل اگتی ہے۔ گندم‘ چاول‘ گنا‘ دالیں‘ پیٹ بھرنے والی کون سی نعمت ہے جو پاکستان میں نہیںہوتی۔ پھل اور سبزیاں اس سے علیحدہ ہیں۔ وہ بھی وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہیں۔ اسکے باوجود اگر ہمارے ہاں بھوک گھروں میں ناچ رہی ہے تو یہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ حیرت کی بات ہے جو کسان محنت کش زمین کا سینہ چیر کر یہ اجناس اگاتا ہے‘ خود اسی کے گھر والے خوراک کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ قوت خرید میں کمی اور مہنگائی نے تو اب متوسط طبقے کو بھی بھوک و ننگ کا شکار بنا دیا ہے۔ اسکے باوجود ہمارے حکمرانوں کو اشرافیہ کو ذرا بھر شرم نہیں آتی۔ جب وہ یہ عالمی رپورٹ دیکھتے ہیں‘ جس میں ہمیں بھوک کا شکار ممالک میں پست ترین درجہ میں شامل کیا گیا ہوتا ہے۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بھوک ہمارے سارے نظام کو ہی اپنی لپیٹ میں لیکر کسی اژدھے کی طرح نگل جائے پھر نہ کوئی حاکم بچے گا نہ سرمایہ دار۔ باقی رہے گا بس اللہ کا نام۔
٭٭……٭٭
ٹرین کے ڈائننگ ہال میں رقص کی ویڈیو
یہ بہت شرم کی بات ہے۔ ایسی بے ہودہ حرکت وہ بھی ایک سرکاری محکمے کے تحت چلنے والی ٹرین میں‘ کسی معافی کی مستحق نہیں۔ یوں لگ رہا تھا یہ ٹرین کا ڈائننگ ہال نہیں‘ پرانی فلموں کے نائٹ کلب کا سین ہے۔ جو عورتیں رقص کر رہی تھیں‘ انہوں نے تو شرم و حیاء کو کھڈے لائن لگایا ہی تھا‘ مگر جو مسافر تماشبین بن کر انجوائے کر رہے تھے‘ ان کی غیرت کہاں سو گئی تھی۔ کسی ایک نے بھی اس بے ہودگی پر اعتراض نہیں کیا۔ اس ناچ گانے کو روکنے کی بات نہیں کی۔ کیا ہم سب جہنم میں جانیوالی ٹرین کے مسافر بن چکے ہیں جنہیں اپنے انجام کا بھی خوف نہیں رہا۔ پہلے ہی لوگ یوم آزادی کے حوالے سے خواتین کے رقص و موسیقی کے پروگرام پر تنقید کر رہے ہیں۔ اب اگر حکومت کی سرپرستی میں یہ کچھ ہو رہا ہے تو اس سے عوام کے حوصلے تو بڑھیں گے۔ وہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے جانے کی کوشش کرینگے۔ ریلوے حکومتی ادارہ ہے۔ کیا یہ ناچ گانا بھی حکومتی مرضی سے ہوا تھا۔ اگر یہ معاملہ نجی شعبہ میں چلنے والی ٹرین کا بھی ہے تو قابل معافی نہیں۔ انکی بھی گرفت ہونی چاہئے۔ وہ آسمان سے نہیں اترے‘ اس ملک اور معاشرے میں انہیں رہنا جہاں اس قسم کے لچرپن کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ شرم آتی ہے یہ ویڈیو دیکھ کر خدا کرے یہ کوئی شرارت ہو اور کسی نے جان بوجھ کرریلوے کو بدنام کرنے کیلئے ایسی حرکت کی ہو ورنہ بدقماش لوگوں کا کیا وہ تو ریٹرن ٹکٹ لیکر لاہورتا کراچی اور کراچی تا لاہورایسے رقص و سرود کی محفل کا مزہ لینے کیلئے روزانہ سفر کرتے پھریں گے۔ کہیں اس طرح شاید اس ٹرین کی آمدنی میں اضافے کا یہ کوئی شیطانی منصوبہ تو نہیں ہے۔
٭٭……٭٭
پی ٹی آئی کا امریکہ میں امیج بہتر بنانے کیلئے تین کمپنیوں سے معاہدے
یک نہ شد دو شد والی بات اب پرانی ہو گئی۔ یہ تو سراسر سہ شد والی بات ہے۔ پی ٹی آئی والوں نے سیاست سے لیکر زندگی کے ہر شعبہ میں تبدیلی لانے کا جو عمل شروع کیا تھا‘ وہ اپنے عروج پر جا رہا ہے۔ ’’ریٹرن ‘‘ کا تڑکا لگا کر یہ عمل اب مزید وسعت پا رہا ہے۔ رجوع کرنے کے بہت سے بہانے مل جاتے ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ آدمی میں بے نیازی کی عادت پختہ ہو۔ کل تک پی ٹی آئی والے اپنے قائد عمران خان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے امریکہ کو اپنی حکومت کا قاتل قرار دیتے نہیں تھکتے تھے‘ ہر جلسے میں‘ ریلی میں امریکہ کے خلاف دھواں دھار تقاریر ہوتی تھیں۔ اسے تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا جاتا تھا۔ اب یو ٹرن کی سہولت ملنے کی وجہ سے پی ٹی آئی نے تین عدد امریکی کمپنیوں سے لاکھوں روپے ماہانہ پر معاہدہ کر لیا ہے جو امریکہ میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے اور ان کا امیج بہتر بنانے کیلئے وہاں لابنگ کریں گی۔ ان میں سے ایک کمپنی کا سربراہ امریکی سی آئی اے کا سابق اعلیٰ عہدیدار ہے جبکہ ایک کمپنی اس صاحب نے ہائر کی ہے جس نے امریکی سازشی خط اور دھمکی کا ناٹک رچایا۔ یعنی اسد مجید۔ اب وہ بھی خان صاحب اور پی ٹی آئی کی امریکہ میں صفائیاں دینے کیلئے ایک کمپنی کی لاکھوں روپے عوض خدمات لے چکے ہیںاسی طرح ایک اور کمپنی کی بھی خدمات لی گئی ہیں۔ اس پر ہم کیا کہہ سکتے ہیں‘ اس کے سوا کہ: ’’تمہی نے درد دیا ہے‘ تمہی دوا دینا‘‘
یہاں میر تقی میر بھی یاد آرہے ہیں جو ہمیشہ اس عطار سے دوا لیتے تھے جس کی وجہ سے بیمار ہوئے تھے۔ اب وہ امریکہ دشمنی والے قصے کہاں گئے۔ اب کیوں خان جی اور پی ٹی آئی والے امریکہ کے صدقے واری جا رہے ہیں اور دوستی کیلئے مرے جا رہے ہیں۔
٭٭……٭٭
سیلاب زدہ علاقوں میں بڑی تعداد میں مویشی بیماریوں سے مرنے لگے
ابھی ہمارے ہاں لمپی سکن کی بیماری کا کوئی شافی علاج دستیاب نہیں ہے ‘ ہزاروں مویشی اس بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔ سینکڑوں مر رہے ہیں۔ حکومتیں سیاسی جنگ و جدال میں مصروف ہیں۔ ان کو مویشیوں کی بیماری اور مرنے سے کیا دلچسپی ہوگی۔ فی الحال لمپی سکن نامی اس بیماری کاکوئی مستند علاج یا ویکسین دستیاب نہیں۔ محکمہ حیوانات کے ڈاکٹر بھی ملی جلی ادویات استعمال کرکے تکے سے کام چلا رہے ہیں جس سے حالات مزید بے قابو ہورہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں اب تک ہزاروں مویشی مر گئے ہیں۔ خیبر پی کے اور بلوچستان میں بھی یہ مرض پھیلا ہوا ہے۔ نجانے کیوں حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ ابھی یہ آفت کم نہ تھی کہ سیلاب زدہ علاقوں میں پانی اور حبس کی وجہ سے دھوپ میں پڑے مویشی بھی بیمار ہونے لگے ہیں۔ مال مویشی ہمارے ملک کا قیمتی خزانہ ہیں۔ اسکے ساتھ یہ پالنے والوں کیلئے زندگی کی نوید ہوتے ہیں۔ انکی وجہ سے دودھ اور گوشت کے ساتھ چمڑے کا منافع بخش کاروبار بھی چل رہا ہے۔ بار برداری اور زمینداری میں بھی ان کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اسلئے مرکزی ہو یا صوبائی حکومتیں‘ مویشیوں کی بیماری پر توجہ دیں۔ انکے تحفظ کیلئے متاثرہ علاقوں میں ڈاکٹروں‘ طبی عملے اور ادویات کی فوری دستیابی یقینی بنائیں تاکہ ان کو بچایا جا سکے ورنہ یہ ایک بڑا قومی نقصان ہوگا جس کے ملکی زراعت اور معیشت پر برے اثر پڑ سکتے ہیں۔