وزیراعظم پاکستان عمران خان نے یوم پاکستان کشمیر میں منایا۔ ان کے مخلص اور جانثار دوست ڈاکٹر بابر اعوان بھی ان کے ساتھ تھے۔ ہماری خوشیاں اور غم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔ -14 اگست عمران خان نے آزاد کشمیر میں گزارا۔ آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کیا۔ اس قومی تقریر میں کشمیر کی تقدیر دھڑکتی تھی۔ کبھی کوئی تقریر عمران خان نے کاغذ دیکھ کر اور پرچیوں کی مدد سے نہیں کی۔ وہ ہر کہیں زبانی کلامی بلکہ منہ زبانی بولتے ہیں۔ فی البدیہہ سے بھی کچھ آگے بولتے ہیں۔ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولتے ہیں اور دلوں کے دروازے کھولتے ہیں۔ ہمارے کئی حکمران بیرونی ممالک کے سربراہاں سے پرچیاں آگے رکھ کو بولتے تھے۔ کسی دن کوئی پرچی اُڑ گئی تو پھر کیا ہو گا۔ وہی ہو گا جو منظور خدا ہو گا۔
-14 اگست کو عمران خان آزاد کشمیر گئے۔ اب یہ خطہ آزاد بھی ہے اور کشمیر بھی ہے ورنہ کہا جاتا تھا کہ آزاد کشمیر نہ آزاد ہے نہ کشمیر ہے۔ یہ خطہ صدر قیوم کی ملکیت بن گیا تھا۔ پھر سردار عتیق نے اسے اپنے والد کی قید سے چھڑا کر اپنی قید میں ڈالنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ سردار عتیق اچھا ہے۔ مگر اپنی سیاسی وراثت کو قابو نہ رکھ سکا۔ اب کشمیر کے لئے اس کا نام بھی کہیں نہیں آتا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسی قومی قیادت سامنے نہ آ سکی ۔ نواز شریف نے دشمن بھارتی وزیر اعظم مودی کو اپنے گھر میں اپنی نواسی کی شادی میں بلایا اور وہ کابل سے بغیر ویزے کے اس ’’شاہانہ‘‘ تقریب میں شریک ہوا۔ وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے اس کا استقبال کیا اور اپنے گھر والوں سے اس کا تعارف کرایا ، اپنے دونوں بیٹوں سے بھی ملوایا جو بیرونی شہری ہیں۔ وہ برطانوی شہریت پر فخر کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اُن کا پاکستان میں شاندار استقبال کیا جاتا تھا۔
نواز شریف کی ایک ہی جانشین ہے اور وہ مریم نواز ہے۔ وہ اگر نواز شریف کی جانشین بنے گی تو پھر پاکستان کی جانشین نہیں ہو گی جبکہ اسے پاکستان کی جانشین ہونا چاہئے۔ اسے پاکستان کی جانشین سمجھتا ہوں۔
وہ آجکل نیب کی تحویل میں ہے ۔ یہ افسوسناک ہے۔ اس میں حقیقت کتنی ہے۔ میں نہیں جانتا۔ میں جاننا بھی نہیں چاہتا۔ سنا ہے کہ مریم نواز کے اثاثے بھی بیرون ملک میں اور کروڑوں اربوں میں ہیں۔
میرا خیال اس کے بارے میں اچھا ہے۔ میری خواہش ہے کہ وہ نوازشریف کی جانشین نہ بنے۔ کلثوم نواز کی جانشین بنے۔ کلثوم نواز میری کلاس فیلو تھی۔ میں نے ایسی خاندانی عورت نہ دیکھی ہوگی۔ وہ کمال کی خاتون تھی۔ مہذب اور کم کم بات کرنے والی۔
مریم نواز کیلئے خیال ہے کہ وہ ایک لیڈر عورت ہے۔ وہ اپنی سیاست کرے مگر وہ اپنی عظیم والدہ کلثوم نواز کو اپنے سامنے رکھے۔ اس کے دونوں بھائی حسن اور حسین کاروباری ہو گئے ہیں۔ وہ دولت کی ’’حقیقت‘‘ سے واقف ہیں۔ ہماری پاکستانی سیاست کو نوازشریف نے دولت کا پلان دیا ہے مگر امید نہیں کہ حسن نواز اور حسین نواز سیاست میں دولت لگائیں گے۔ یہ کاروبار بھی اچھا ہے مگر اس کا تجربہ ان دونوں بھائیوں کا نہیں ہے۔ یورپ میں دولت کا استعمال کچھ اور طرح کا ہے۔ وہاں دولت کا استعمال اس طرح ظالمانہ نہیں ہوتا جس طرح پاکستان میں ہے۔ پاکستان میں ظلم و سیاست لازم ملزوم ہیں۔ بلکہ ایک دوست نے اسے ظالم و مظلوم کہا تھا۔ تقریباً اس طرح صحافت کا معاملہ بھی ’’لازم و ملزوم‘‘ سمجھا جاتا ہے اور اس سے اگلی بات بھی کبھی کبھی لازمی ہو جاتی ہے۔
حسن نواز اور حسین نواز کو یہاں کامیاب ہونے کے لئے کچھ وقت لگ جائے گا۔ جبکہ اتنا وقت ان کے پاس نہیں ہے۔ یہاں اب معاملات صرف مریم نواز ہی سنبھال پائے گی۔
اسے اپنی ہم نام مریم اورنگزیب مل گئی ہے۔ دونوں سہیلیاں ہیں ہم نام بھی ہیں۔ ہسفر بھی ہونگی ۔ اس لئے کام چل جائے گا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اگلی سیاست مریم نواز اور بلاول بھٹو کے درمیان ہوگی۔ مقابلہ ہوگا۔ مریم تو مریم نواز ہیں مگر بلاول کو بلاول بھٹو زرداری نے بنایا بلکہ اس نے اپنا سیاسی مستقبل محفوظ کرنے کیلئے بلاول کو بلاول بھٹو زرداری بنا دیا ہے۔ اس طرح کام خراب ہوگا۔ کبھی بھٹو اور زرداری ایک نہیں ہونگے۔ عمران سچا لیڈر ہے جس نے یوم پاکستان اور یوم کشمیر کو ایک کر دیا ہے۔ وہ بلاول زرداری ہے مگر یہ زرداری کا کمال ہے اسے بلاول بھٹو بنانے میں لگا ہوا ہے۔ اس سے گزارش ہے کہ اسے بلاول بھٹو زرداری نہ بنائے ور نہ سیاسی خود غرضی ہوگی۔ اس کا انجام بھی اچھا نہیں ہوگا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024